سیّد قاضی میر غیاث الدین بخاری نقشبندی مجددی ؒ :/ Syed Qazi Mir Ghayas Uddin Bukhari Naqashbandi Akbarpura
سیّد قاضی میر غیاث الدین بخاری نقشبندی مجددی ؒ :
سیرت و مقام
حضرت سیّد قاضی میر شرف الدین بخاریؒ، سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزندِ ارجمند اور اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ سلوک و طریقت میں آپؒ نے اپنے والدِ ماجد کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور انہی کے فیض یافتہ بنے۔علم و حکمت میں آپؒ یگانۂ روزگار تھے۔ علمِ طب میں طبیبِ حاذق تھے اور باطنی علوم میں اسرارِ کیمیا، سیمیا اور جفر پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ آپؒ کی طبیعت میں نہ صرف علم کا ذوق تھا بلکہ کشف و کرامت کے انوار بھی بھرپور جلوہ گر تھے۔
آپؒ اکثر سیاحت کے لیے بلخ، بخارا اور بدخشاں کے علاقوں کا سفر فرمایا کرتے تھے۔ یہ خطے آپؒ کے اجداد اور اسلاف کی سرزمینیں تھیں، جہاں اُن کی روحانی نسبتیں اور محبتیں رچی بسی تھیں۔ ان دیار کے رہنے والے حضرتؒ کے خاندان سے محبت و عقیدت کا گہرا تعلق رکھتے تھے۔ہر سال جب حضرتؒ وہاں تشریف لے جاتے، تو اہلِ محبت و ارادت پیشانیِ شوق سے نذرانے اور ہدیے پیش کرتے۔ ان ہدیوں میں انواع و اقسام کے سامان ہوتے، جو حضرتؒ خوش دلی سے قبول کرتے اور وطن واپس آکر اکبرپورہ میں نہ صرف خود استعمال کرتے بلکہ سخاوت کے دروازے کھول دیتے — یوں دوسروں کو بھی کھلاتے اور خوشی و فیاضی کی محفلیں بساتے۔حضرت سیّد قاضی میر شرف الدین بخاریؒ کا وجود برکت، سخاوت، علم اور روحانیت کا ایسا حسین امتزاج تھا کہ آپؒ کی حیاتِ مبارکہ آج بھی عقیدت مندوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
شہادت اور خانوادۂ پاک کا تسلسل
حضرت سیّد قاضی میر شرف الدین بخاریؒ کی حیاتِ طیبہ سراپا علم، زہد، تقویٰ، اور روحانی سیاحت کا ایک روشن مینار تھی۔ آپؒ کی شخصیت اس دور کے لیے بھی باعثِ ہدایت تھی اور آج کے زمانے کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے۔ لیکن تقدیرِ الٰہی نے آپؒ کے ظاہری سفر کا اختتام ایک ایسا واقعہ بنایا جو تاریخِ اکبرپورہ کا ایک خونچکاں باب ہے۔
پس منظر:
یہ وہ وقت تھا جب برصغیر میں سیاسی و سماجی حالات شدید انتشار کا شکار تھے۔ شمال مغربی علاقوں میں کئی قبائل اور خارجی حملہ آور گروہ، جو لوٹ مار کو پیشہ بنائے ہوئے تھے، آئے روز دیہات اور قصبوں پر حملے کرتے۔ ان حملہ آوروں میں بعض نہ صرف دین سے ناواقف تھے بلکہ اولیائے کرام اور دینی شعائر کے بھی دشمن تھے۔اکبرپورہ، جو اُس وقت علم و روحانیت کا مرکز تھا، حضرت سیّد قاضی میر شرف الدین بخاریؒ کی موجودگی کی وجہ سے روحانی فیض کا مرکز بن چکا تھا۔ آپؒ کا فیض دور دور تک پھیلا ہوا تھا، اور آپؒ کے مریدین کی بڑی تعداد بلخ، بدخشاں، بخارا اور چترال تک پھیلی ہوئی تھی۔
حملہ:
ایک روز ناگہانی طور پر کچھ سیاہ پوش، غیر مسلم، اور وحشی لٹیرے اکبرپورہ پر حملہ آور ہوئے۔ ان کا مقصد لوٹ مار، بربادی، اور قتل و غارت تھا۔ انہوں نے بستی کو آگ لگا دی، گھروں کو نذرِ آتش کیا، مال و دولت لوٹا، اور ہر اُس شخص کو شہید کیا جو ان کی راہ میں آیا۔جب ان سیاہ پوش دشمنوں کو معلوم ہوا کہ یہاں ایک بزرگ ولی اللہ، حضرت سیّد قاضی میر شرف الدین بخاریؒ موجود ہیں، تو وہ حسد اور بغض میں جلتے ہوئے آپؒ کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپؒ اس وقت اپنے حجرہ میں ذکر و فکر میں مشغول تھے۔ اہلِ خانہ اور مریدین نے آپؒ کو خطرے سے آگاہ کیا لیکن آپؒ نے فرمایا:
"یہ وقت رجوع الی اللہ کا ہے، میں شہادت کا طلبگار ہوں، نہ کہ دنیاوی حفاظت کا۔"
شہادت:
لٹیروں نے آپؒ پر ہلہ بولا۔ آپؒ نے نہایت سکون اور جلال کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مگر جب دشمن نے نیت بگاڑ لی، تو آپؒ نے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے اللہ کے حضور اپنی جان پیش کی۔ وہ مقدس جسم جس سے ہزاروں کو ہدایت ملی، ظلم و ستم کا نشانہ بنا۔ آپؒ کو شہید کر دیا گیا ، وہ بھی ایسی حالت میں کہ آپؒ ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے۔
بعد از شہادت:
حضرتؒ کے اہلِ خانہ اور مریدین نے بڑی دلیری اور حکمت کے ساتھ اُن کے جسدِ مبارک کو محفوظ مقام پر دفن کیا۔ وہ جگہ جو آج "مقبرہ قاضیان، اکبرپورہ" کہلاتی ہے، آپؒ کی آخری آرام گاہ بنی۔
اس دل سوز واقعہ کے وقت حضرتؒ کے چھوٹے فرزند، جو آپؒ کے ساتھ ہی موجود تھے، جان کے خطرے کے پیش نظر اکبرپورہ کو چھوڑ کر شمال کی سمت روانہ ہوئے اور بالآخر ریاست چترال پہنچے، جہاں انہوں نے سکونت اختیار کی۔ وہاں اُنہوں نے ایک نیا وطن بنایا اور ان کی نسل وہیں پروان چڑھی، جو آج بھی اس علاقے میں آباد ہے۔
حضرتؒ کے دوسرے فرزند، سیّد قاضی میر کاظم الدین بخاریؒ، نے اکبرپورہ ہی میں قیام فرمایا اور اپنے والدِ بزرگوار کے روحانی مشن کو جاری رکھا۔ آپؒ کی نسل آج بھی اکبرپورہ میں موجود ہے اور دو نمایاں خانوادوں میں تقسیم ہے:
سیّد قاضی میر جمیل صاحبؒ اور اُن کے صاحبزادگان،اب بھی اکبرپورہ و مضافات میں آباد ہیں۔
سیّد قاضی میر غفور شاہ باباؒ، جن کی نسل اکبرپورہ و مضافات میں بڑی تعداد میں موجود ہے یہ دونوں خانوادے آج بھی اپنے اسلاف کی روحانی روشنی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
Comments
Post a Comment