Syed Qamir Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari k Sab say Chota Sahibzada Syed Qazi Mir Ahmad Gee Sahib and Zikar Syed Qazi Shah Pasand

 

v     سیّد قاضی میر احمد جی صاحب ؒ

     سیّد قاضی میر احمد جیؒ، بلند پایہ بزرگ اور صاحبِ علم و فضل ہستی، سیّد قاضی میر غلام محی الدین بخاریؒ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ آپ نے علومِ دینیہ، فقہ، قضا و افتاء میں گہری مہارت حاصل کی، اور اپنے آباؤ اجداد کی سنتِ مقدسہ پر چلتے ہوئے قضائے شرعیہ کے فرائض سرانجام دیے۔آپؒ کے بڑے بھائی میر صاحب زادہ جیؒ کی وفات کے بعد، حاکمِ وقت نے آپ کو باقاعدہ طور پر اکبرپورہ اور مضافات کا قاضی مقرر فرمایا۔ قاضی میر احمد جیؒ نہ صرف علم و عدل کے میدان میں درخشاں تھے بلکہ سلفِ صالحین کی طرح اوراد و وظائف، ذکر و اذکار اور روحانی مشقوں میں بھی منہمک رہا کرتے تھے۔آپؒ کی روحانی وابستگی کا ایک واضح مظہر یہ ہے کہ وہ طویل عرصہ تک اخوند پنجو باباؒ کے مزار پر جاکر روحانی فیض حاصل کرتے رہے۔ یہ سلسلہ ان کی سادگی، تقویٰ اور تزکیۂ نفس کا مظہر تھا۔

                اولادِ مبارک

       اللہ تعالیٰ نے قاضی میر احمد جیؒ کو پانچ بیٹوں سے نوازا، جن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:سیّد قاضی شاہ شرفؒ، سیّد قاضی شاہ پسندؒ، سیّد قاضی حسن شاہؒ، سیّد قاضی حضرت شاہؒ  اورسیّد قاضی شیر شاہؒ ۔ ان میں سےسیّد قاضی حسن شاہؒ اور سیّد قاضی حضرت شاہؒ کی اولاد نہیں تھی۔جبکہ باقی تین بیٹوں سیّد  شاہ شرفؒ، سیّد  شاہ پسندؒ، اور  سیّد شیر شاہؒ  کی نسلیں آج بھی موجود ہیں، اور وہ اکبرپورہ و گردونواح میں اپنے اجداد کے دینی، روحانی اور اخلاقی ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ان کی نسلیں علم، دیانت، عاجزی، اور شریعت کی پیروی میں پہچانی جاتی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت سیّد قاضی میر احمد جیؒ کی تربیت صرف اپنے زمانے ہی تک محدود نہ تھی بلکہ اُن کے روحانی اثرات نسل در نسل منتقل ہو رہے ہیں۔

1.      سیّد قاضی شاہ شرف ؒ

       اولادِ سیّد قاضی شاہ شرفؒ

       حضرت سیّد قاضی شاہ شرفؒ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم و روحانیت کی دولت سے مالا مال کیا تھا، اپنے والد قاضی میر احمد جیؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک باوقار، بااخلاق اور محنتی شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو چار بیٹوں سے نوازا:سیّد گلاب شاہ، سیّد اکبر شاہ، سیّد غازی شاہ اور سیّد دلبر شاہ۔ ان میں سے سیّد دلبر شاہ کی اولاد نہیں تھی، جبکہ بقیہ تین فرزندانسیّد گلاب شاہ، سیّد اکبر شاہ اور سیّد غازی شاہ کی نسلیں آج بھی موجود ہیں،  یہ سب اپنے اپنے دور میں اپنے نیک اسلاف کی تعلیمات، اخلاقی اقدار اور دینی خدمات کا عملی نمونہ بنے رہے۔آج بھی ان تین بزرگوں کی نسلیں اکبرپورہ و گردونواح میں موجود ہیں، جو علم، دیانت، سخاوت، اور خاندانی وقار کی پہچان سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا گھرانہ اب بھی اپنی علمی، روحانی اور معاشرتی خدمات کی وجہ سے ایک خاص شناخت رکھتا ہے۔

     سیّد قاضی گلاب شاہ ؒ                                    

       حضرت سیّد گلاب شاہ، جو قاضی خاندان کے ایک متقی، باکردار اور بااصول فرد کے طور پر جانے جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں سے نوازا:سیّد امام شاہ، سیّد نقاب شاہ ، سیّد الف شاہ اور سیّد افضل شاہ۔ ان چار بیٹوں میں سے سیّد نقاب شاہ اور سیّد افضل شاہ غالباً بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے اور ان کی نسل آگے نہ بڑھ سکی۔ جب کہ سیّد امام شاہ اور سیّد الف شاہ نے اپنے والد کے علم و تقویٰ، خاندانی وقار اور روحانی تسلسل کو آگے بڑھایا۔ انہی دو شخصیات کی نسلیں آج بھی موجود ہیں، جو اپنے خاندانی پس منظر اور نیک روایات کی امین سمجھی جاتی ہیں۔یہ دونوں بھائی، اپنے وقت میں سادگی، شرافت، علم دوستی اور صوفیانہ مزاج کے لیے معروف تھے، اور آج ان کی اولادیں انہی اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے معاشرے کی تعمیر میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔

       سیّد قاضی امام شاہ

       سیّد قاضی امام شاہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک فرزند عطا فرمایا، جن کا نام سیّد قاضی محمد شاہ تھا۔سیّد قاضی محمد شاہ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عطا فرمائے:سیّد کرامت شاہ اور سیّد احمد شاہ۔ یہ دونوں برادران اس وقت راولپنڈی میں مقیم ہیں۔

سیّد قاضی الف شاہ

       سیّد قاضی الف شاہ کو اللہ تعالیٰ نے تین صاحبزادگان سے نوازا۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام سیّد قاضی جلال شاہ تھا، ان کے بعد سیّد قاضی مستعان شاہ اور سب سے چھوٹے سیّد قاضی فیروز شاہ تھے۔ یہ تینوں حضرات اپنے خاندانی ورثے، دینداری، اور شرافت میں نمایاں تھے اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنے والے باوقار افراد میں شمار ہوتے تھے۔

            سیّد قاضی جلال شاہ

       سیّد قاضی جلال شاہ کو اللہ تعالیٰ نے آٹھ بیٹوں سے نوازا، جن میں ہر ایک نے اپنے خاندان کی دینی، اخلاقی اور خاندانی اقدار کو زندہ رکھا۔ سب سے بڑے بیٹے سیّد قاضی اقبال شاہ پہلے محلہ قاضیان، اکبرپورہ میں مقیم تھے، بعد ازاں دلہ زاک روڈ، بیلہ نیکو خان منتقل ہوئے۔ سیّد قاضی کمال شاہ اور سیّد جمال شاہ دونوں کا خاندان گھڑی تازہ گل میں آباد ہے۔ سیّد افضال شاہ نے بھی محلہ قاضیان سے ہجرت کر کے ٹیٹارہ میں سکونت اختیار کی۔ سیّد بلال شاہ کی نارینہ اولاد نہیں تھی، تاہم وہ بھی گھڑی تازہ گل میں ہی رہائش پذیر تھے۔ باقی تین بیٹے، سیّد مطہر شاہ، سیّد مستمر شاہ، اور سیّد مدثر شاہ بھی گھڑی تازہ گل، اکبرپورہ میں آباد ہیں۔ سیّد جلال شاہ کی تدفین ان کے آبائی قبرستان قاضی بابا قبرستان، اکبرپورہ میں عمل میں آئی، جہاں وہ اپنے اسلاف کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔

            سیّد قاضی مستعان شاہ 

       سیّد قاضی مستعان شاہ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں سے نوازا۔ سب سے بڑے بیٹے سیّد قاضی غفران شاہ تھے، جن کی اولاد آج بھی گھڑی تازہ گل، اکبرپورہ میں مقیم ہے۔ دوسرے صاحبزادے سیّد قاضی سیّدان شاہ نے ٹیٹارہ شریف کو اپنا مسکن بنایا، جہاں ان کی نسل آباد ہے۔ تیسرے بیٹے سیّد قاضی فرمان شاہ آج بھی اپنے آبائی گھر محلہ قاضیان، اکبرپورہ میں سکونت پذیر ہیں۔ سیّد قاضی مستعان شاہ کی تدفین بھی بزرگوں کی روایت کے مطابق قاضی بابا قبرستان، اکبرپورہ میں عمل میں آئی۔

            سیّد قاضی فیروز شاہ

       سیّد قاضی فیروز شاہ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ صاحبزادوں سے نوازا، جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں: سیّد قاضی شہنشاہ، سیّد قاضی اسماعیل شاہ، سیّد قاضی خالد شاہ، شاہ قاضی فیصل اور سیّد قاضی نادر شاہ۔ یہ تمام حضرات حالیہ دور میں ٹیٹارہ شریف میں آباد ہیں اور اپنے نیک اسلاف کی روحانی و خاندانی روایتوں کے امین ہیں۔ سیّد قاضی فیروز شاہ کی تدفین ان کے جد امجد سیّد قاضی میر عبد الرحمن بخاریؒ کے قرب میں، قبرستان ٹیٹارہ شریف میں عمل میں آئی۔

2.      سیّد قاضی شاہ پسند ؒ 

       سیّد قاضی شاہ پسندؒ، اپنے وقت کے صالحین میں شمار کیے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو دو بیٹوں سے نوازا: سیّد احمد شاہؒ اور سیّد چاندبادشاہؒ۔ مؤخرالذکر، سیّد چاند بادشاہؒ غالباً کم سنی میں ہی وفات پا گئے۔جبکہ سیّد احمد شاہؒ 1800ء کی صدی کے ممتاز بزرگوں میں سے تھے۔ آپؒ کی شادی قاضی عبد الرحیمؒ عرف قاضی نیکہ بابا کڑویؒ کی نواسی سے ہوئی، جو ایک نہایت نیک سیرت اور باحیا خاتون تھیں۔اس بابرکت نکاح سے اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی نعمت سے نوازا۔ بیٹے کا نام سیّد قاضی یوسف شاہ تھا، جو بعد میں اپنے بزرگوں کی علمی، روحانی اور خاندانی روایات کا وارث بنے۔

       سیّد قاضی یوسف شاہؒ کی ولادت بیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی۔ آپؒ کا بیشتر بچپن اپنی نانی جان کے ہاں کڑوی میں گزرا، جس نے آپؒ کی شخصیت پر گہرے روحانی اثرات چھوڑے۔ اسی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے آپؒ کو کم عمری ہی سے علماء، مشائخ اور اولیاءِ کرام سے خاص محبت اور قلبی تعلق پیدا ہوا، جو آپؒ کی پوری زندگی میں نمایاں رہا۔آپؒ کی پہلی شادی سیّد قاضی احمد شاہؒ کی صاحبزادی سے ہوئی، جو سیّد میر افضل شاہؒ کی نواسی تھیں۔ واضح رہے کہ سیّد میر افضل شاہؒ، اکبرپورہ کے جلیل القدر بزرگ شمس العلما سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے بڑے بھائی تھے، یوں یہ نکاح روحانی و خاندانی لحاظ سے ایک باعزت اور مقدس نسبت تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت رشتہ سے آپؒ کو چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کی نعمت سے نوازا، جو نہ صرف اپنے والد کی علمی، روحانی، اور اخلاقی وراثت کے امین بنے، بلکہ اپنے اپنے دائرہ میں خاندان کی عزت و ناموس کا پرچم بھی بلند رکھا۔

       سیّد قاضی یوسف شاہؒ کی دوسری شادی کڑوی  کے مشہور و معروف بزرگ قاضی عبد الرحیمؒ عرف قاضی نیکہ  کے متبرک اور دیندار گھرانے میں ہوئی۔ آپؒ کی زوجہ محترمہ ایک نیک سیرت، باپردہ، اور روحانی ذوق رکھنے والی خاتون تھیں، جن کی دلی خواہش تھی کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ، اجمیر شریف (ہند) کی زیارت کی جائے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا، سفری سہولیات نہایت محدود تھیں، لیکن باوجود اس کے آپ دونوں میاں بیوی نے خلوصِ نیت کے ساتھ پیدل سفر اختیار کیا اور اجمیر شریف کی زیارت سے فیضیاب ہوئے۔سیّد قاضی یوسف شاہؒ ایک واقعہ بڑے درد اور حسرت سے بیان کرتے تھے کہ تمہاری نانی جان میرے ساتھ اجمیر شریف کے بازار میں گھوم رہی تھیں۔ ان کی نظر ایک دکان پر پڑی، جہاں ایک خوبصورت اور سجایا ہوا پھل رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے اُسے خریدنے کی فرمائش کی۔ جب میں نے وہ چیز اپنی زوجہ کے لیے خریدی اور اس کی بیرونی سجاوٹ ہٹا کر اصل چیز دیکھی تو وہ بٹنگ (ایک ناقابلِ خوردنی گھاس نما چیز) نکلا۔ میں نے فوراً زمین پر دے مارا اور کہا، 'ہائے قسمت! ہمارے ہاں تو اس کو گدھے بھی نہیں کھاتے، اور یہاں اسے قیمتی پھل بنا کر بیچا جا رہا ہے!'"یہ واقعہ نہ صرف ان کے فہم اور ذوق کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ اُن کی سادگی اور سچائی کا بھی اظہار ہے۔اس شادی کے تقریباً دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔آپؒ کی ایک بیٹی کی شادی اخوند پنجو باباؒ کے خاندان میں ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیّد قاضی یوسف شاہؒ کو بھی اپنے بزرگوں کی طرح حضرت اخوند پنجو باباؒ اور ان کے خانوادے سے نہایت عقیدت و محبت تھی۔ یہ روحانی تعلق نہ صرف نسبت کا ذریعہ بنا بلکہ برکت کا سبب بھی ثابت ہوا۔

       سیّد قاضی یوسف شاہؒ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو نیک سیرت، باوقار اور باعمل بیٹوں سے نوازا، جنہوں نے اپنے والدِ گرامی کی دینی، روحانی اور سماجی روایات کو نہ صرف اپنایا بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا۔سب سے بڑے صاحبزادے سیّد رستم شاہ تھے، جن کی شادی سیّد بہرام شاہ کی صاحبزادی سے ہوئی۔ آپ کا یہ خاندان اس وقت گھڑی تازہ گل میں آباد ہے اور وہیں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ان کے بعد سیّد قاضی روخان شاہ تھے، جن کی شادی بھی ان کے والد محترم نے قاضی نیکہ باباؒ کے خاندان میں طے کی۔ یہ خاندان آج بھی اپنے آبائی مقام محلہ قاضیان میں مقیم ہے، اور اپنی سادہ و باوقار زندگی کے لیے مشہور ہے۔تیسرے نمبر پر سیّد قاضی قاسم شاہ تھے، جن کی شادی سیّد غفور شاہ کی بیٹی سے ہوئی۔ آپ بھی محلہ قاضیان میں رہائش پزیر ہیں۔چوتھے بیٹے سیّد بہادر شاہ اور سب سے چھوٹے صاحبزادے سیّد قاضی عثمان شاہ ہیں، جو دونوں بھی اپنے آبائی گھر، محلہ قاضیان، اکبرپورہ میں سکونت پذیر ہیں۔

       سیّد قاضی یوسف شاہؒ ایک نہایت محنتی اور معاملہ فہم زمیندار تھے۔ آپؒ نے اپنے رفیق اور ہم عصر سیّد قاضی غفور شاہؒ کے ساتھ مل کر زراعت سے حاصل ہونے والے مال کو تجارتی مقاصد کے لیے اجمیر شریف اور اس کے گرد و نواح میں فروخت کیا۔ یہ عمل نہ صرف ان کی معیشت کا ذریعہ تھا بلکہ زیارت اور روحانی سفر کی سعادت بھی۔پاکستان بننے کے بعد، سیّد قاضی یوسف شاہؒ نے کراچی کے راستے سے حجِ بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی، جو اُن کی دینی وابستگی اور عبادت کی محبت کا واضح ثبوت ہے۔

       سیّد قاضی یوسف شاہؒ کے ساتھ گزرا ہوا ایک منظر ہمیشہ میرے ذہن پر نقش ہو گیا، جو آج تک دل کو تڑپاتا ہے اور آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔ ایک دن ہم سب نواسوں کو جمع کر کے کڑوی لے جایا گیا۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ جیسے ہی یوسف شاہ بابا کا پہنچنے کا علم ہوا، کڑوی کے گلیوں سے چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ وہاں کی عورتیں گھروں سے باہر نکل کر ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کر رہی تھیں، اور ہر کسی کی زبان پر ایک ہی صدا تھی:

"قاضی بابا راغلو!"      یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا، جہاں ہر کوئی چاہتا تھا کہ آپؒ ہمارے گھر پہلے آئیں، لیکن سیّد قاضی یوسف شاہؒ نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہم کھیتوں میں بیٹھ کر کھائیں گے۔ اور پھر آپؒ نے سب کو ایک ساتھ کھانا لانے کی ہدایت دی تاکہ سب مل کر کھائیں۔ جب کھانا لایا گیا، تو ایک عورت نے کہا:

"قاضی بابا! اوگورہ ما فلانے ساگ پوخ کڑے، بل با آواز اوکو وائی ماما جی ما فلانے ساگ پوخ کڑے"

       یہ جملہ سنا تو دل میں ایک عجب سا دکھ اور محبت کا احساس آیا، کیونکہ وہ وقت اور وہ محبت کی نوعیت بہت مختلف تھی۔ جب بھی یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے، میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں، کیونکہ آج کے دور میں ایسی محبت اور یکجہتی کہیں نظر نہیں آتی۔یاد آتا ہے کہ ان دنوں کڑوی کے بزرگ مشران آپؒ کے پاس آتے تھے، جو بعد میں آپؒ کے انتقال کے بعد، وہ نظریں کبھی نہیں دیکھ سکیں۔ وہ سادگی، وہ محبت، وہ دلی تعلقات جو آپؒ کے ساتھ جڑے تھے، وہ وقت واپس نہیں آتا۔

       سیّد قاضی یوسف شاہؒ 2000ء کے اوائل میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپؒ کی وفات کے بعد جب ہم اپنے کھیتوں کی طرف گئے، تو ایک عجیب اور دل ہلانے والا منظر دیکھا۔ آپؒ کے ہاتھوں سے بنے ہوئے ڈیرہ کی چاروں دیواریں، بغیر کسی آفت یا قدرتی حادثے کے، خود بخود گر گئی تھیں۔ یہ منظر ان لوگوں کے لیے ایک گہری علامت تھا جو سمجھنے والے تھے۔ وہ ایک عظیم روحانی شخصیت تھی، اور اس کی وفات کے بعد جو حالات دیکھے گئے، وہ ایک خاص حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔آپؒ کا مدفن سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے مشرق کی جانب واقع ہے، جہاں آپؒ کی قبر کے قریب آکر آج بھی لوگ دعا گو ہوتے ہیں اور آپؒ کے فیض سے اپنی زندگیوں کو روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

3.      سیّد قاضی شیر شاہ ؒ

       سیّد قاضی میر احمد جیؒ کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام سیّد قاضی شیر شاہؒ تھا، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے نوازا، جن کا نام سیّد قاضی مبارک شاہؒ تھا۔ سیّد مبارک شاہؒ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا: سیّد اکبر شاہؒ اور سیّد میر افضل شاہؒ۔سیّد اکبر شاہؒ ایک معزز شخصیت کے حامل تھے اور اپنے خاندان کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے نہ صرف علمی میدان میں کامیاب ہوئے بلکہ لوگوں کے درمیان اپنی فراست اور علم کی وجہ سے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔سیّد میر افضل شاہؒ بھی ایک جلیل القدر شخصیت کے حامل تھے، جو اپنے والدین کی دعاؤں اور خاندان کے روحانی فیض سے فیضیاب ہوئے۔ ان کا کردار اور زندگی لوگوں کے لئے ایک مثال تھی، اور ان کی شخصیت نے ان کے خاندان کو ایک اور روحانی بلندی عطا کی۔یہ دونوں بھائی اپنے آباؤ اجداد کی روایات کے پیروکار اور ان کی دین اور دنیا کی تعلیمات کو آگے بڑھانے والے تھے۔

 

       سیّد قاضی اکبر شاہ

       سیّد قاضی اکبر شاہؒ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا: سیّد بغداد شاہؒ اور سیّد ولایت شاہؒ۔ ان دونوں بھائیوں نے فیصل آباد کو ہجرت کی اور وہاں اپنی مستقل رہائش اختیار کی۔ دونوں نے اپنی زندگی میں علم و عمل کی روایات کو برقرار رکھا اور اپنے خاندان کی عزت و تکریم کو بڑھایا۔ فیصل آباد میں ان کی آبادکاری نے نہ صرف ان کے خاندان کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی، بلکہ اس شہر میں بھی ان کے علمی اور روحانی اثرات کی گونج سنائی دی۔

     سیّد قاضی میر افضل شاہ

       سیّد قاضی میر افضل شاہؒ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا: سیّد شیر افضل اور سیّد قاضی محمد افضل۔ سیّد شیر افضلؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں سے نوازا جن کے نام ہیں: سیّد سبز علی شاہ، سیّد مظفر شاہ، سیّد محمد پرویز شاہ، اور سیّد امتیاز شاہ۔ یہ تمام بھائی ٹیٹارہ شریف میں آباد ہیں۔دوسری طرف، سیّد قاضی محمد افضلؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں سے نوازا: سیّد قاضی صفدر شاہ، سیّد قاضی محمد شاہ، سیّد قاضی منیر شاہ، اور سیّد قاضی سلیم شاہ۔ ان میں سیّد قاضی صفدر شاہ اپنے آبائی محلہ قاضیان میں مقیم ہیں، جبکہ سیّد قاضی منیر شاہ جبہ داؤد زئی میں آباد ہیں اور سیّد قاضی سلیم شاہ گھڑی تازہ میں رہائش پذیر ہیں۔

 

Comments

Popular posts from this blog

عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددی خلیفہ مجاز حضرت محمد یخیٰ المعروف حضرت جی اٹک /Syed Qazi Abdullah Shah Bukhari Naqashbandi

Syed Qazi Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari Naqashbandi Mujaddi