عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددی خلیفہ مجاز حضرت محمد یخیٰ المعروف حضرت جی اٹک /Syed Qazi Abdullah Shah Bukhari Naqashbandi

 سیّد قاضی حافظ عبد اللہ  شاہ بخاری نقشبندی مجددی ؒ

حضرت سیّد قاضی حافظ عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددیؒ برصغیر پاک و ہند کے ان جلیل القدر صوفیائے کرام میں سے تھے جنہوں نے شریعت، طریقت اور روحانیت کو یکجا کر کے اصلاحِ امت اور تربیتِ خلق کا عظیم فریضہ انجام دیا۔ آپؒ ایک بلند پایہ عالمِ دین، کامل مرشد، اور سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے ممتاز روحانی پیشوا تھے، جن کی سیرت و تعلیمات نے نہ صرف اپنے دور بلکہ بعد کی نسلوں پر بھی گہرے اثرات چھوڑے۔

نسب      

       آپؒ  نسباً سادات کرام میں سے تھے، اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ آپؒ اپنے نام کے ساتھ "بخاری" کا لاحقہ استعمال فرماتے تھے، جو اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپؒ کا نسب امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ (مصنفِ صحیح بخاری) سے بھی متصل ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، آپؒ کے آباء و اجداد میں حضرت سیّد جلال الدین بخاریؒ کا اسمِ گرامی بھی سلسلہ وار آتا ہے، اس لیے قوی امکان ہے کہ "بخاری" کا اطلاق حضرت سیّد جلال الدین بخاریؒ کی نسبت سے بھی کیا جاتا ہو۔ گویا کہ آپؒ کو دو عظیم "بخاری" نسبتوں کا شرف حاصل تھا ایک علم و حدیث کے تاجدار سے، اور دوسری سلوک و ولایت کے شہسوار سے۔

      سلسلہ

       تصوف میں "سلسلہ" سے مراد وہ روحانی زنجیر ہے جو ایک شیخ سے اُس کے مرشد کے ذریعے آگے چلتی ہوئی براہِ راست سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک پہنچتی ہے۔ یہ سلسلہ دراصل فیضِ نبوت کا تسلسل ہے جو اولیائے کاملین کے ذریعے اُمت تک منتقل ہوتا ہے۔ اگرچہ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ عام طور پر کسی مخصوص صوفی سلسلے سے منسوب نہیں کیے جاتے، تاہم اُن کا علمی مقام اور حدیثِ نبوی ﷺ میں ان کی عظیم خدمات انہیں روحانی سلاسل میں بطور "سند" جگہ دلواتی ہیں۔ بالخصوص سلسلہ نقشبندیہ کے مشائخ اپنے علمی و روحانی شجرہ میں امام بخاریؒ جیسے جلیل القدر محدثین کا ذکر بطورِ برکت اور تسلسلِ علم کرتے ہیں۔

       سلسلہ نقشبندیہ کا ایک عظیم شعبہ نقشبندیہ مجددیہ ہے، جو مجددِ الفِ ثانی، حضرت شیخ احمد سرہندیؒ سے منسوب ہے۔ حضرت امام ربانیؒ اس سلسلے کے روشن چراغ اور مجددِ وقت تھے، جن کے ذریعے نقشبندیہ کو ایک نئی روح، وسعت اور بیداری ملی، اور جن کے فیوض و انوار نے برصغیر کے طول و عرض کو منور کیا۔

     روحانی مقام

       آپؒ  اپنے زمانے کے ممتاز قاضیِ وقت، حافظِ قرآن، اور صاحبِ سلوک شیخِ طریقت تھے۔ آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کو قرآن و حدیث کی تعلیم، سلوک و طریقت کی اشاعت، اور لوگوں کی روحانی اصلاح و تربیت کے لیے وقف کر دیا۔ آپ نے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی تعلیمات کو عام کیا، اور زہد، عبادت، ذکر و فکر، اور باطن کی صفائی کو اپنی دعوت کا مرکزی عنوان بنایا۔ آپ کی خانقاہ، علم و معرفت، تقویٰ و طہارت، اور سلوکِ الیٰ اللہ کا ایسا مرکز بن گئی جہاں سے سینکڑوں طالبانِ حق نے فیض پایا۔

     روحانی خصوصیات

ذکرِ خفی پر زور

باطنی طہارت اور "مراقبہ" کی تعلیم

سنتِ نبوی ﷺ کی سختی سے پیروی

اصلاحِ باطن کے ساتھ ساتھ شریعت پر عمل کا داعیہ

     تعلیمات و اثرات

       آپ کی تعلیمات کا مرکز باطنی تزکیہ، اخلاص، اور اتباعِ سنت تھا۔ جو بھی آپ سے مرید ہوا، وہ شریعت کی طرف پلٹ گیا اور دل و دماغ کی دنیا بدل گئی۔ آپ کے فیض یافتگان میں کئی علماء، صلحاء، اور عوام شامل تھے۔

     مریدین و سلسلہ

       آپؒ کے خلفاء و مریدین میں سب سے نمایاں نام آپؒ کے صاحبزادے حضرت قاضی غلام محی الدین نقشبندی مجددیؒ  کا ہے، جو نہ صرف آپ کے فیض یافتہ خاص شاگرد تھے بلکہ آپ کے بعد سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی گدی پر بھی فائز ہوئے۔ انہوں نے اپنے والدِ گرامی کے فیوض و برکات کو اپنی ذات میں جذب کیا اور ان کی روحانی تعلیمات و تربیت کو صدقِ دل سے آئندہ نسلوں تک منتقل کیا۔ ان کی حیات طیبہ آپؒ کی روحانی میراث کا زندہ مظہر تھی، اور ان کے ذریعے اکبرپورہ کی سرزمین ایک بار پھر علم و عرفان کا مرکز بن گئی۔

       آپؒ سادات کرام اور ذوالاحترام علمائے عظام و مشائخِ کرام میں سے تھے۔ ہجرت کا واقعہ اس سے قبل گزر چکا ہے، مختصراً یہ کہ آپؒ نے اپنے والدِ محترم کے ہمراہ شیخ المشائخ حضرت محمد یخیٰ المعروف حضرت جیؒ اٹک کے دستِ حق پرست پر بیعت کی،  اس کے بعد علاقہ چھچھ تشریف لے گئے جہاں آپؒ اور آپؒ کے والدِ گرامی کی ملاقات صاحبِ کرامت و ولایت بزرگ حضرت میاں عنصر نقشبندی مجددیؒ سے ہوئی، جو حضرت جیؒ کے خلیفۂ مجاز اور روحانی پیر بھائی بھی تھے،  اسی نسبت سے دونوں حضرات کے مابین محبت، الفت، اور باہمی روحانی انسیت کا ایک گہرا تعلق قائم ہوا، اور وقت کا خاصا حصہ ایک دوسرے کی صحبت میں گزرا۔

       اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ایسا ہوا کہ حضرت میاں عنصر صاحبؒ کے اصرار پر، آپؒ نے ان کی صالحہ و متقی ہمشیرہ سے نکاح فرمایا، جو بعد ازاں صالح و بافیض اولاد کا ذریعہ بنیں، جن کا تذکرہ آئندہ صفحات میں آئے گا۔

       چند سال علاقہ چھچھ میں قیام کے بعد، آپؒ نے پشاور کے مضافات میں واقع قصبہ اکبرپورہ کو اپنی مستقل رہائش کے لیے منتخب فرمایا، اور یوں یہ علاقہ آپؒ کی روحانی اور اصلاحی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔

            عطائے منصب قاضی القضاء:۔

       سیّد قاضی الحافظ عبد الرحمٰن بخاریؒ کو دورِ افشاریہ کے اواخر میں پشاور کے مضافاتی علاقوں کا قاضی مقرر کیا گیا، یہ وہ زمانہ تھا جب نادر علی قلی بیگ افشار (1736ء تا 9 جون 1747ء) کی حکومت زوال پذیر تھی۔ نادر علی  کے قتل کے بعد افغانستان کے عظیم فرمانروا احمد شاہ ابدالیؒ نے بیس لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل وسیع افغان سلطنت کی بنیاد رکھی، جو دینی، سیاسی اور ثقافتی حوالے سے برصغیر کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔

       احمد شاہ ابدالیؒ نہ صرف ایک مدبر اور طاقتور بادشاہ تھے بلکہ روحانیت کے میدان میں میاں عمر صاحب چمکنیؒ کے مریدِ صادق اور عاشقِ صادق تھے۔ وہ جب بھی پشاور تشریف لاتے، سب سے پہلے اپنے مرشدِ کامل میاں عمر صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ان کی روحانی وابستگی کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے پیر و مرشد کی زیارت کو اپنے اوپر فرض جانتے تھے، اور ان کی خدمت کے بعد ہی حکومتی اُمور کی طرف توجہ فرماتے۔یہی میاں عمر چمکنیؒ، شیخ زکریا المعروف شہید میاں صاحبؒ (میاں گجر)، حضرت میاں عنصر نقشبندیؒ، حضرت سیّد قاضی الحافظ عبد الرحمٰن بخاریؒ اور حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ، سب حضرات حضرت محمد یخیٰؒ (حضرت جی اٹک) کے روحانی خلفاء اور پیر بھائی تھے۔ یہ ایک ایسا نادر روحانی حلقہ تھا جس نے دینی، صوفیانہ اور سماجی میدان میں عظیم کردار ادا کیا۔

مس العلماء ابو الصفاء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانی ؒ

            محبت و الفت مزار مبارک سیّد عبد الوہاب  المعروف اخوند پنجو بابا ؒ اکبرپورہ:۔

     سیّد قاضی عبداللہ شاہ بخاریؒ کو وراثت میں ہی اولیاء اللہ کی صحبت اور ان کے مزارات سے گہری عقیدت و محبت حاصل تھی۔ اپنے مرشدِ محترم کے وصال کے بعد، آپؒ نے مزارِ مبارک حضرت سیّد عبد الوہاب المعروف اخوند پنجو باباؒ سے روحانی فیض حاصل کرنے کو اپنا معمول بنایا۔ آپؒ اکثر و بیشتر اس مزارِ اقدس کے قریب مراقبہ فرمایا کرتے، جہاں کی روحانی فضاء آپؒ کے قلب و باطن کو منور کرتی۔

       حضرت قاضی صاحبؒ   کو اپنے والدِ گرامی، سیّد قاضی حافظ عبد الرحمٰن نقشبندیؒ کی طرف سے خصوصی وصیت تھی کہ سلطان الاولیاء، اخوند پنجو باباؒ سے قلبی و روحانی تعلق کو مضبوط رکھیں، جسے آپؒ نے نہ صرف اپنی زندگی کا حصہ بنایا بلکہ اسے اپنے اہلِ خانہ کے لیے بھی بطور نصیحت چھوڑا۔ آپؒ اپنی اولاد کو ہمیشہ تلقین فرمایا کرتے کہ اکبرپورہ کے مزارِ اخوند پنجو باباؒ کی زیادہ سے زیادہ زیارت کیا کریں تاکہ اس نسبتِ پاک سے فیض یاب ہوں۔یہی وہ روحانی وابستگی اور اخلاص تھا جس کی بدولت آج بھی صدیاں گزرنے کے باوجود، ان اولیاء اللہ کی محبت اہلِ دل کے قلوب میں زندہ و تابندہ ہے۔ ان کی پاکیزہ نسبت نے وقت کی گرد کو کبھی ان کے فیض پر غالب نہیں آنے دیا۔

تعمیر مسجد قاضیان:۔

موجودہ "مسجد قاضیان" دراصل سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کا خلوت خانہ تھا، جو اُن کے روحانی مجاہدات، مراقبوں اور شب بیداری کا گواہ ہے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں آپؒ شب و روز سخت ریاضت اور قیام اللیل میں مشغول رہتے، اور اپنی روح کو قربِ الٰہی میں غرق رکھتے۔شمس العلماء، سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ نے اپنی معروف تصنیف تحفۃ الاولیاء میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ نے اس خلوت خانہ میں ایسی شدید ریاضت اختیار کی کہ جسمِ مبارک پر محض چمڑا رہ گیا اور ہڈیوں پر گوشت باقی نہ رہا۔ ان مجاہدات کے دوران آپؒ سے بے شمار کرامات اور خارق عادات مظاہر ظاہر ہوئے، جنہیں اہلِ محلہ قاضیان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جنہیں وقت نے بھی فراموش نہ کیا۔

ان میں سے ایک حیرت انگیز واقعہ بارہا بیان کیا جاتا ہے کہ اہلِ محلہ نے آدھی رات کے وقت آپؒ کو اس کیفیت میں دیکھا کہ آپؒ کے جسم مبارک کے سات اندام ایک دوسرے سے جدا ہوکر بے قراری میں جنبش کر رہے تھے، اور جسم کے ہر گوشے سے کلمہ طیبہ "لا الٰہ الا اللہ محمدٌ رسول اللہ" کی آواز بلند ہو رہی تھی، یہ روح پرور منظر دیکھ کر بعض لوگ گھبرا کر بھاگ نکلتے اور یہ سمجھتے کہ آپؒ پر کسی نے ظلم کیا یا شہید کر دیا۔ مگر جب صبح ہوتی اور لوگ آپؒ کو زندہ و سلامت دیکھتے تو حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتے۔

یہی خلوت خانہ، جو عبادت، ریاضت اور روحانی تجربات کا مرکز رہا، آپؒ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں ایک مسجد میں تبدیل کر دیا گیا، جو آج بھی مسجد قاضیان اندرون کے نام سے موجود ہے اور اہلِ دل کے لیے مرکزِ فیض بنی ہوئی ہے۔ یہ مسجد نہ صرف ایک عبادت گاہ ہے بلکہ روحانیت، قربِ الٰہی اور اولیاء اللہ کی عظمت کا مجسم نشان بھی ہے۔

کرامت کیا ہے؟

کرامت  لغوی معنی میں "عزت"، "بزرگی" یا "عطیہ" کے ہیں۔

اصطلاحی طور پر کرامت ایسی غیر معمولی اور خلافِ عادت چیز کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے ولیوں (نیک اور مقرب بندوں) کے ہاتھ پر ظاہر فرماتا ہے۔ یہ کوئی جادو یا شعبدہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی طرف سے خاص عطا ہوتی ہے، جو عام قوانینِ فطرت سے ہٹ کر ہوتی ہے۔

کرامت اور معجزہ کا فرق

·         معجزہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے تاکہ اس کی نبوت کی سچائی کو ظاہر کرے۔

·         کرامت نبی نہیں بلکہ ولی (یعنی اللہ کا نیک بندہ) کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے اور نبوت کی تصدیق میں بالواسطہ دلیل ہوتی ہے۔

·         کرامت کا دعویٰ ولی خود نہیں کرتا بلکہ لوگ اس کے افعال سے اسے پہچانتے ہیں۔

مثال:

·        نبی موسیٰ علیہ السلام کا دریا کو عصا سے پھاڑ دینا معجزہ تھا۔

·        حضرت جنید بغدادیؒ کا پانی پر چلنا کرامت مانی جاتی ہے۔

کرامت کی شرائط

علماء نے کرامت کے حقیقی ہونے کی چند شرائط بیان کی ہیں:

·        کرامت ولی کے تقویٰ، اخلاص اور دین پر مضبوطی کی علامت ہو۔

·        کرامت سے شریعت کے احکام میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔

·        کرامت سے ولایت یا بزرگی کا دعویٰ یا فخر نہ کیا جائے۔

·        کرامت اللہ کی عطا ہے، ولی اس پر اپنا اختیار نہیں رکھتا۔

·       کرامت کی اقسام

·       علمی کرامت: علم یا فہم کا غیر معمولی عطا ہونا۔

·       عملی کرامت: کسی ظاہری خلافِ عادت فعل کا صادر ہونا، جیسے بغیر وسائل کے دور کا سفر طے کر لینا۔

·       باطنی کرامت: دلوں کا حال جان لینا یا پوشیدہ چیزوں کی خبر دینا (بشرطیکہ شرع کے مطابق ہو)۔

            آپ ؒ کے کرامات و برکات:۔

       حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی ایک عجیب و غریب کرامت

       جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے مجاہدات اور ریاضات کے دوران کئی ایسی خارق العادت کیفیات ظاہر ہوئیں جنہوں نے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہی کرامات میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے جو نہ صرف محلہ قاضیان بلکہ اردگرد کے تمام علاقوں میں چشم دید گواہوں کے ذریعے مشہور ہوا۔یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرتؒ اپنے خلوت خانہ میں سخت ریاضت و مراقبہ میں مشغول تھے، مصری پورہ جو کہ مزارِ مبارک حضرت اخوند پنجو باباؒ کے قریب واقع ایک محلہ ہے ، سے ایک عورت، جو ایک زمیندار کی بیوی تھی، اپنی گم شدہ گائے کی تلاش میں نکلی، تلاش کرتے کرتے رات کافی گزر گئی، اور وہ خاتون بے خبری میں حضرت قاضی صاحبؒ کے خلوت خانہ کے قریب سے گزری، اچانک اُس کی نگاہ ایک عجیب منظر پر پڑی ، کہ حضرتؒ کے جسمِ مبارک کے اندام علیحدہ علیحدہ زمین پر بے قراری میں تڑپ رہے تھے، اور ہر اندام سے کلمہ طیبہ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ یہ روحانی حالت دیکھ کر وہ خاتون گھبرا گئی، اور یہ گمان کر بیٹھی کہ حضرتؒ کو کسی دشمن نے شہید کر دیا ہے۔ وہ شدتِ غم میں رونے لگی اور اس کی آہ و زاری پر اہلِ علاقہ جمع ہو گئے۔جب لوگوں نے اُس خاتون سے اس واقعے کی تفصیل دریافت کی، تو اُس نے اپنے آنکھوں دیکھا حال سب کے سامنے بیان کر دیا، مگر چونکہ وہ ایک ایسی روحانی حالت کا مشاہدہ کر بیٹھی تھی جو اللہ کے خاص بندوں کے رازوں میں سے تھا، اس لیے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسی وقت اس خاتون کی بینائی سلب فرما لی، تاکہ اولیاء اللہ کے اسرار آئندہ ظاہر نہ کیے جائیں۔یہ واقعہ نہ صرف حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی روحانی بلندی کا ثبوت ہے، بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ اولیاء اللہ کے مجاہدات و احوال میں اللہ تعالیٰ کی خاص حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، جنہیں ہر آنکھ دیکھنے اور ہر عقل سمجھنے کے قابل نہیں۔

                حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی زہد، کرامت اور بے نیازی کا ایک روشن پہلو

       حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی سیرتِ مبارکہ میں بے شمار کرامات، روحانی واردات اور فتوحات کا ذکر ملتا ہے۔ مگر ان تمام مظاہر کے باوجود آپؒ کا طرزِ زندگی نہایت سادہ، دنیا سے بے رغبتی اور فقر پر مبنی تھا۔ آپؒ نہ صرف تارک الدنیا تھے بلکہ حقیقی معنیٰ میں زاہدِ کامل تھے، جن کے لیے دنیا و مافیہا کی کوئی حیثیت نہ تھی، اسی زہد و برکت کا ایک عجیب و پرنور واقعہ آپؒ کی خادمہ کے ذریعے منقول ہے۔ فرمایا جاتا ہے کہ ایک خادمہ جو روزمرہ کے گھریلو امور سرانجام دیا کرتی تھی، نے خود بیان کیا کہ وہ جب ہر صبح حضرتؒ کا مصلیٰ مبارک اُٹھاتی، تو اس کے نیچے ہمیشہ پانچ روپے (اس وقت کے رائج الوقت سکہ) رکھے ہوتے۔ یہ مسلسل ہونے والی کرامت محض ایک اتفاق نہ تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص برکت و انعام تھا، جیسا کہ اولیاء اللہ کے ہاں ایسے عجائبات بکثرت پائے جاتے ہیں۔یہ واقعہ اس روحانی قانون کی روشن مثال ہے کہ:

                "جو اللہ کے ہو جاتے ہیں، دنیا ان کے قدموں میں آ جاتی ہے۔"

       حضرت قاضی صاحبؒ کی بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ آپؒ نے اپنے قلب و روح کو دنیا کی محبت سے پاک رکھا۔ ہر جمعہ کے دن، آپؒ بغیر کسی مصلیٰ، عصا، یا کسی قسم کے اسباب کے، اپنے پاس موجود تمام اثاثہ، مال، یا ضروری اشیاء فقراء و مساکین میں اللہ کے نام پر تقسیم فرما دیتے۔ نہ کچھ سنبھالتے، نہ کچھ بچا کر رکھتے۔ یہ انداز نہ صرف زہد و توکل کا مظہر تھا بلکہ ایک عظیم روحانی درس بھی کہ اصل زندگی وہی ہے جو اللہ کے لیے ہو، اور اصل دولت وہی ہے جو دوسروں کو دے دی جائے۔آپؒ کی حیاتِ طیبہ کا ہر لمحہ زہد، سخاوت، اور قربِ الٰہی سے معمور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ کی شخصیت آج بھی اہلِ دل کے قلوب میں زندہ ہے، اور آپؒ کی کرامات اور روحانی فیضان آج بھی عقیدت مندوں کے لیے ذریعۂ ہدایت و برکت ہے۔

            بارش میں بھیگے بغیر گزر جانا، ایک روحانی کرامت

       حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی حیاتِ مبارکہ میں ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت، معجزاتی کیفیت اور روحانی شان سے معمور تھا۔ انہی روشن واقعات میں سے ایک واقعہ حضرتؒ کے قدیم خادم، میاں احمد شاہ صاحبزادہ محمد شاہ کے ذریعے روایت کیا گیا ہے۔میاں احمد شاہ صاحب اپنے والد محترم محمد شاہ سے نقل کرتے ہیںکہ ایک روز شدید بارش ہو رہی تھی میں (محمد شاہ) حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ تھا، جب آپؒ گھر سے مسجد کی جانب روانہ ہوئے۔ بارش تیز تھی، اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ مگر میں نے حیرت کے ساتھ دیکھا کہ آپؒ کا لباس بالکل خشک تھا، جیسے ابھی گھر سے نکلے ہوں۔ نہ کوئی بوند، نہ کوئی نمی، نہ بارش کا کوئی اثر،  یہ منظر میری آنکھوں نے خود دیکھا، اور میں دنگ رہ گیا کہ بارش کی شدت میں سب کچھ بھیگ چکا تھا، مگر حضرتؒ کے جسمِ مبارک اور لباس پر بارش کا نام و نشان تک نہ تھا۔

       یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے نیک بندوں کو ظاہری اور باطنی آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰؑ کے لیے دریا راستہ بنا دیتا ہے، اسی طرح اولیاء اللہ کے لیے بارش بھی اپنے اثرات موقوف کر دیتی ہے۔یہ نہ صرف ایک کرامت ہے، بلکہ حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے روحانی مقام اور اللہ سے ان کے تعلقِ خاص کا ایک روشن ثبوت بھی ہے۔

 

            سکھوں کے حملے اور مسجدِ قاضیان کی حفاظت — ایک ظاہر و باطن کی کرامت

       تاریخِ اکبرپورہ کے صفحات میں ایک حیران کن اور روح پرور واقعہ درج ہے، جو حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی کرامت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسجدِ قاضیان کی حفاظت کا روشن ثبوت ہے۔

       سکھوں کے دورِ حکومت میں، جب اہلِ اسلام کے شعائر، مساجد اور مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، اکبرپورہ کی مساجد بھی اُن کی جارحیت سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اُنہی ایّام میں حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی مسجد، جو اُس وقت ایک سادہ مگر روحانی عظمت کی حامل عبادت گاہ تھی، بھی ان حملوں کی زد میں آئی۔سکھوں نے جب مسجدِ قاضیان کو آگ لگانے کی ناپاک کوشش کی، تو اُن کے خیال میں یہ مسجد بھی دیگر مساجد کی طرح راکھ کا ڈھیر بن جائے گی۔ اس وقت مسجد کی چھت لکڑیوں سے بنی ہوئی تھی، اور اوپر بوریا ڈالا گیا تھا ، جو آگ کو فوراً لپک لینے والے عناصر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کا جلوہ ایسا ظاہر ہوا کہ آگ لگانے کے باوجود مسجد میں صرف دھواں پیدا ہوا، شعلہ تک نہ بھڑکا، لکڑیاں محفوظ رہیں اور بوریا تک سلامت رہا، نہ مسجد جلی، نہ کوئی نقصان ہوا۔

       یہ کرامت دیکھ کر سکھ حیرت اور مایوسی میں ڈوب گئے۔ وہ سمجھ نہ سکے کہ یہ کیسا مقام ہے جس پر آگ کا بھی اثر نہیں ہوتا، ان کے دلوں میں خوف اور ندامت نے جگہ لی، اور وہ اپنی اس گستاخانہ حرکت پر پشیمان ہو کر مسجد کو چھوڑ کر واپس پلٹ گئے۔

       یہ واقعہ آج بھی اکبرپورہ کے بزرگوں کی زبانی نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے، اور اہلِ دل کے لیے یقین، محبت، اور نسبت کا باعث بنا ہوا ہے۔ حضرت قاضی صاحبؒ کی اس کرامت نے ثابت کر دیا کہ جہاں نیت خالص، عبادت سچی، اور تعلق اللہ سے مضبوط ہو، وہاں ظاہری آگ بھی عاجز ہو جاتی ہے۔

       تخت گاہِ قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کا جلال، ایک روحانی حقیقت

       حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کا گھر اور وہ مقام جہاں آپؒ ذکر و فکر میں مشغول رہا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی خاص تجلیات اور انوارات کا مرکز تھا۔ یہ وہ مقدس مقام تھا جہاں آپؒ کی خلوتیں، ریاضتیں، اور اللہ سے راز و نیاز کے لمحات گزرتے تھے۔ ایسا مقام محض ایک رہائشی جگہ نہیں بلکہ اولیاء اللہ کی روحانی تخت گاہ ہوتا ہے، جس پر بے ادبی یا بے احتیاطی شدید روحانی اثرات لا سکتی ہے۔

       روایت ہے کہ اگر کوئی بچہ لاعلمی یا نافہمی کے باعث آپؒ کے اُس مقام پر چڑھ جاتا جہاں آپؒ ذکر فرمایا کرتے تھے، تو وہ زندہ نہ رہتا۔ اسی طرح اگر کوئی مرغ اُس تخت گاہ پر آ جاتا تو وہ فوراً ہلاک ہو جاتا۔ ان واقعات سے بعض لوگ اشکال میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ شدت اولیاء اللہ کے شایانِ شان ہے؟یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اولیاء اللہ کی دو تجلیات ہوتی ہیں: ایک جمالیہ (محبت، شفقت، نرمی) اور دوسری جلالیہ (ہیبت، غیرتِ روحانی، ناراضگیِ حق تعالیٰ کی جھلک)۔ حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ جیسی جلیل القدر ہستیوں پر اکثر جلالی تجلیات غالب ہوتی تھیں، اور ایسے مقامات پر ادب اور وقار کی معمولی خلاف ورزی بھی غیر معمولی نتائج پیدا کر سکتی تھی۔تصوف کی تاریخ میں اس نوع کے بے شمار واقعات پائے جاتے ہیں، بلکہ بعض اہلِ اللہ کے بارے میں تو یہاں تک منقول ہے کہ اگر کوئی حاملہ عورت ان کے مخصوص مقام پر جاتی، اور اس کے بطن میں لڑکا ہوتا، تو وہ حمل ساقط ہو جاتا ، اور یہ سب کچھ اللہ کے راز اور ان کی مشیّت کے تحت ہوتا، جسے عقلِ ظاہر سے پرکھنا ممکن نہیں۔یہ تمام امور اہلِ عرفان کے نزدیک روحانی نظام کا ایک حصہ ہیں، جن کا تعلق ظاہری انصاف سے نہیں بلکہ باطنی حقائق اور اللہ کے منتخب بندوں کی نسبتوں سے ہوتا ہے۔

       لہٰذا ہمیں ایسے واقعات پر اعتراض کرنے کے بجائے ادب، تسلیم اور خاموشی کو اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ بزرگ فرماتے ہیں کہ

"ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں"

       اولیاء اللہ کی غیرتِ روحانی ، چور کی بینائی سلب ہونا

       حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی روحانی عظمت اور اللہ تعالیٰ سے اُن کے قرب کا عالم یہ تھا کہ آپؒ کی عبادت گاہ نہ صرف ایک مقامِ ذکر و فکر تھی بلکہ وہ مقام، اللہ کی غیرت اور تجلیات کا مرکز بھی تھا۔روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک چور نے ناپاک ارادے سے آپؒ کے خلوت گاہ (عبادت گاہ) میں چوری کی نیت سے سوراخ کرنے کی کوشش کی۔ جیسے ہی اُس نے پہلا سوراخ کیا، اللہ جلّ شانہٗ کی غیرت جوش میں آئی اور فوراً اُس چور کی بینائی چھین لی گئی۔ نہ صرف وہ کچھ چرا سکا، بلکہ اس اندھی حالت میں عبرت کا نشان بن گیا، یہاں تک کہ رسوائی کے ساتھ اسی حالت میں مر گیا۔ یہ اللہ کی طرف سے اُس کے لیے ایک فوری سزا تھی اور اولیاء اللہ کی حفاظت کا غیبی اعلان۔

"اولیاء کے دل وہ حرم ہوتے ہیں جہاں اللہ بغیر نقاب کے جلوہ فرماتا ہے"

لہٰذا جو بھی شخص اولیاء اللہ کے مقام، اُن کی خلوت یا راز کی جگہوں کے بارے میں بدگمانی یا بے ادبی کا ارادہ کرے، وہ دراصل خود اپنی ہلاکت کو دعوت دیتا ہے۔

                بدعت کے خلاف جلالِ قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کوہستانی ملایان کا انجام

       حضرت سیّد قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ نہ صرف اہلِ دل اور عارف باللہ تھے بلکہ شریعتِ محمدی ﷺ کے سچے علمبردار اور بدعت کے سخت مخالف بھی تھے۔ آپؒ کا مزاج، سنت کی پاسداری اور دینِ اسلام کے حقیقی رنگ کو بچانے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہا۔

       اس حوالے سے ایک اہم واقعہ روایت کیا جاتا ہے کہ کوہستان کے بعض مولوی، جنہیں "ملایان" کہا جاتا تھا، ایک خبیث رسم کے عادی تھے — وہ ہر جمعہ کی رات مسجد میں "اتنڑ" (روایتی ناچ یا گیت) کیا کرتے تھے، اور افسوس ناک امر یہ تھا کہ وہ اسے "عبادت" سمجھتے تھے۔جب وہ حضرت قاضی عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی مسجد میں بھی یہی بدعت دہرانے آئے، تو آپؒ نے نہایت نرمی سے اُنہیں سمجھایا اور منع فرمایا کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، یہاں ذکر، عبادت، تلاوت اور طہارت کی جگہ ہے، نہ کہ کھیل، ناچ یا بدعات کی۔ مگر ان ملایان نے اپنی پرانی خرافات پر اصرار کیا، اور آپؒ کی بات کو نظر انداز کر کے بدعت جاری رکھی۔حضرت قاضی صاحبؒ کو اللہ کے گھر کی بے حرمتی برداشت نہ ہوئی، آپؒ نے ان ملایان کو بددعا دی — اور اسی وقت اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا۔ اُن میں سے ہر ایک فوراً وجع (جوڑوں کا درد)، مفاصل کی کمزوری اور تشنج جیسی جسمانی تکالیف میں مبتلا ہو گیا، جس نے اُنہیں بدنی طور پر مفلوج اور ذہنی طور پر ہوش میں لا دیا۔یہ عبرتناک انجام اُن کے لیے ایک روحانی چابک بن گیا، جس کے بعد وہ نہ صرف اپنی رسمِ بد سے باز آ گئے بلکہ حضرت قاضی صاحبؒ کی عظمت کے قائل ہو کر ادب و احترام میں ڈھل گئے۔

       درسِ عبرت:

       یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اولیاء اللہ، دین کے محافظ ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف، رسول ﷺ کی سنت کی محبت، اور بدعت سے شدید نفرت ہوتی ہے۔ ان کی دعائیں اور بددعائیں، دونوں آسمان میں اثر رکھتی ہیں۔ جہاں وہ شفقت سے جنت کا دروازہ کھولتے ہیں، وہیں ضرورت پڑنے پر جلالی تجلی سے ہدایت یا عبرت کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔"مسجد میں ناچ، گانا، شور، یا بدعت یہ دین کی روح کے خلاف بغاوت ہے، اور اللہ کے مقربین ایسی بغاوتوں کو برداشت نہیں کرتے۔"

                حضرت میاں عمر چمکنیؒ اور حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کا روحانی رشتہ اور ایک واقعہ

       حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ اور حضرت میاں عمر چمکنیؒ کے درمیان نہ صرف ایک روحانی تعلق تھا بلکہ ایک محبت بھرا رشتہ بھی تھا، جس میں باہمی ادب و احترام اور روحانی شفقت کا اظہار ہوتا تھا۔ حضرت میاں عمرؒ آپؒ کے کمالات اور فضائل سے بخوبی واقف تھے اور ہمیشہ آپؒ کی صحبت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ آپؒ کی قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و تدبر نے حضرت میاں عمرؒ کو خاص طور پر متاثر کیا تھا، اور آپؒ کی تلاوت پر ان کی محبت اور عقیدت میں اضافہ ہو گیا تھا۔

       ایک دن حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ اپنے پیر بھائی، حضرت میاں عمرؒ کی خدمت میں جانے کے لیے روانہ ہوئے، اور ساتھ ہی آپؒ کے خاص خادم اور شاگرد حافظ محمد شاہ ؒ، جو بعد میں میاں احمد شاہؒ کے والد محترم ہوئے، بھی آپؒ کے ساتھ تھے۔ سفر کے دوران، حافظ محمد شاہ ؒ نے حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ سے کہا کہ آج میں نے گھر پر کھانا نہیں کھایا، اس لیے کہ مجھے امید ہے کہ حضرت میاں عمرؒ میرے دل کی کیفیت سے واقف ہوں گے اور مجھے اپنے ہاتھوں سے پلاؤ پیش کریں گے۔

       حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ نے اپنی بے پناہ روحانیت اور محبت بھری توجہ کے ساتھ فرمایا: "اے دیوانے، تم اولیاء اللہ پر تجربہ کرتے ہو؟ تم آج خوب پلاؤ کھاؤ گے، لیکن میں تو آج دہی اور خمیر کی روٹی کھاؤں گا۔"جب دونوں حضرات حضرت میاں عمرؒ کی خدمت میں پہنچے، تو حافظ محمد شاہ ؒ نے حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی خواہش پر قرآن مجید کا ایک رکوع تلاوت کیا۔ حضرت میاں عمرؒ اس تلاوت سے بے حد محظوظ ہوئے، اور پھر ناشتہ کے طور پر آپؒ کے لیے دہی اور روٹی لائی گئی۔ اس پر حضرت میاں عمرؒ نے حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا۔اسی دوران، حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ نے حافظ محمد شاہ ؒ کو ایک اشارہ کیا، جس پر حضرت میاں عمرؒ ہنسے اور فرمایا: "محمد شاہ آج پلاؤ کھائے گا!" اور پھر اسی وقت حافظ محمد شاہ ؒ کے لیے پلاؤ تیار کرایا گیا۔ یہ واقعہ حضرت میاں عمرؒ کی محبت، حسنِ سلوک اور حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی روحانیت کی ایک خوبصورت جھلک پیش کرتا ہے۔

       روحانی محبت اور برکات:

       یہ واقعہ صرف ایک معمولی دن کا نہیں، بلکہ اولیاء اللہ کی باہمی محبت اور روحانی تعلقات کی حقیقت کا عکاس ہے۔ حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی سادگی، حضرت میاں عمرؒ کی محبت اور ان کے درمیان احترام کا رشتہ، ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ حقیقت میں اللہ کے مقربین کا رشتہ محض جسمانی نہیں، بلکہ دلوں کا رشتہ ہوتا ہے، جو دعاؤں، تلاوت اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے سے مزید مضبوط ہوتا ہے۔یہ بھی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اولیاء اللہ کی زندگیوں میں کبھی بھی ظاہری چیزوں سے زیادہ حقیقت میں ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اور اس کے پیغامات کی گہرائی ہوتی ہے، اور یہی وہ تعلق ہے جو ہمیں اپنی روحانیت اور اخلاق میں بہتری لانے کی ترغیب دیتا ہے۔

                حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے مشہور شاگردوں کا ذکر:

       حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ اور ان کے شاگردوں کے درمیان ایک خاص روحانی اور علمی تعلق تھا، جو صرف رسمی نہیں بلکہ دلوں کی گہرائیوں تک اثر انداز تھا۔ ان شاگردوں کی زندگیوں میں حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی تربیت اور روحانی رہنمائی کا گہرا اثر تھا، جس نے ان کے اخلاق، علم، اور عمل میں بلند مقام حاصل کرنے میں مدد دی۔یہ تعلق نہ صرف علم کی باتوں پر مبنی تھا بلکہ یہ اس بات کا بھی غماز تھا کہ حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کی روحانی تربیت کرے اور اسے دین کی سچی رہنمائی فراہم کرے۔ حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ ان شاگردوں کے تعلقات میں بے پناہ احترام اور محبت کا عنصر تھا، اور ان کا ہر عمل آپؒ کے لیے عزت و توقیر کی علامت تھا۔          حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی تعلیم و تربیت سے بہت سے علماء، اولیاء اور بزرگانِ دین نے فیض حاصل کیا، اور آپؒ کے شاگردوں میں ایسے عظیم شخصیات شامل ہیں جنہوں نے علم، دین، اور روحانیت کے میدان میں اہم مقام حاصل کیا۔ ان میں سے چند مشہور شاگرد جن کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے، وہ ہیں:

       میاں شمس الدینؒ: حضرت میاں شمس الدینؒ ایک عظیم عالم اور بزرگ تھے جنہوں نے حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی زیرِ نگرانی قرآن مجید حفظ کیا اور علمِ دین میں اپنی ماہریت کا لوہا منوایا۔ حضرت شمس الدینؒ کی سیرت اور علم کے چرچے بہت دور تک ہوئے، اور آپؒ کی شاگردی کا اعزاز حاصل کرنا ایک بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی۔

       صاحبزادہ میاں نقرالدینؒ (حافظ بابا): حضرت صاحبزادہ میاں نقرالدینؒ جو "حافظ بابا" کے لقب سے مشہور ہیں، حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے شاگردانِ خاص میں سے تھے۔ آپؒ نے قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد، آپؒ کی تعلیمات پر عمل کیا اور اپنے علاقے میں دین کا پیغام پہنچایا۔ آپؒ کا شمار بھی اُن بزرگانِ دین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا اور حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی تعلیمات کو اپنے عمل میں سچ کر دکھایا۔

       حافظ محمد شاہؒ: حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے خاص خادم اور شاگرد حافظ محمد شاہؒ نے بھی آپؒ سے قرآن مجید حفظ کیا۔ آپؒ کا خاص تعلق حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ سے روحانی طور پر بہت مضبوط تھا، اور آپؒ کی خدمت میں رہ کر آپؒ سے علم اور دین کی حقیقی روشنی حاصل کی۔ حافظ محمد شاہؒ نے اپنے استاد کی تعلیمات کو نہ صرف اپنانا بلکہ اُنہیں عام کرنے کی کوشش کی۔

       یہ تمام حضرات، جو کہ حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے فیض یافتہ تھے، اپنے استاد کے ادب اور احترام کے حوالے سے مثالی شخصیات تھیں۔ ان میں سے صاحبزادہ میاں شمس الدینؒ اور صاحبزادہ میاں نقرالدینؒ (حافظ بابا) نے اپنے علاقے میں دین کی خدمت کی، اور آپؒ کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے سجادہ نشینانِ اخوند خیلان و کوشہ قاضیان بن کر اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔

گر بے ہنر ان قدر خردمن ندا نند

اے عقل حجل نیستم  از توک تو دانی

                اپنے موجودہ اور آنے والے تمام اولاد کو وصیت اور اس کی برکات

       حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ نے اپنی اولاد کے لیے ایک نہایت جامع، پُراثر اور روحانی وصیت چھوڑی، جس کا دائرہ صرف آپؒ کی اولاد ہی تک محدود نہیں بلکہ نسل در نسل، قیامت تک آنے والے آپؒ کے سلسلے سے منسلک ہر فرد، اور ہر وہ شخص جو آپؒ کی درگاہ پر صدق دل سے رجوع کرے، اس فیض کا حقدار ہے۔آپؒ نے فرمایا:

       "اگر میری اولاد یا ان کی اولاد کو کبھی کوئی مصیبت، پریشانی، غم یا حاجت درپیش ہو، تو وہ مسجد قاضیان اندرون میں میرے محراب کے قریب آ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرے۔ اگر وہ صدقِ دل سے تائب ہو کر رجوع کرے، تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا اور اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔"

       یہ وصیت نہ صرف ایک روحانی راز ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی قربت کا عملی ثبوت ہے۔ اس کے بے شمار واقعات اہلِ محلہ کی زبانی محفوظ ہیں، جو اس کی سچائی اور فیض کی گواہی دیتے ہیں۔

       ہمارے محلے کی ایک معمرخاتون اکثر ہمارے گھر تشریف لاتیں اور ہمارے بزرگوں کی کرامات اور روحانی فیض کے واقعات سناتیں۔ انہوں نے ایک بار اپنا ایک ذاتی اور پُراثر تجربہ بیان کیا:فرماتی ہے کہ میری بیٹی کے شوہر نے یہ شرط رکھ دی تھی کہ اگر اب کی بار بھی بیٹی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک نہیں کرے گا۔ میں یہ سن کر بے حد غمگین ہوئی اور دل شکستہ ہو کر حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے مزار مبارک پر حاضر ہوئی۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی اور ہمارے بزرگوں کو وسیلہ بنا کر دعا مانگی کہ 'یا اللہ! میری بیٹی کو بیٹا عطا فرما تاکہ اس کا گھر بس جائے اور شوہر کا دل نرم ہو جائے۔'"اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور کچھ ہی وقت بعد ان کی بیٹی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ خاتون نے خوشی سے سرشار ہو کر بارگاہِ الٰہی کا شکر ادا کیا اور حضرت کے خانوادے سے محبت و عقیدت میں مزید مضبوط ہو گئیں۔

                فیضِ مزار اور دعا کی قبولیت کا مسلسل سلسلہ

       یہ واقعہ محض ایک مثال ہےکہ حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کی وصیت کا فیض آج بھی جاری و ساری ہےکہ محرابِ مسجد قاضیان کے قریب دعا مانگنے والے سینکڑوں افراد نے اپنی دعاؤں کی قبولیت کی شہادت دی ہے۔ اس کی روحانی تاثیر، آپؒ کی سچائی اور خلوص کا واضح ثبوت ہے۔حضرت کی وصیت صرف ایک روحانی تعلیم ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے، جو یہ سکھاتی ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں سچے دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنے اور صالحین کے وسیلہ سے دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ضرور متوجہ ہوتی ہے۔

                حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کے صاحبزادگان اور گدی نشینی

                حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کو اللہ تعالیٰ نے تین نیک سیرت، علم و فضل سے آراستہ فرزند عطا فرمائے:

                سیّد میر غلام محی الدین بخاریؒ

                سیّد میر شرف الدین بخاریؒ

                سیّد میر غیاث الدین بخاریؒ

       یہ تینوں صاحبزادے اپنے والد گرامی کے نقشِ قدم پر چلنے والے، باعمل عالم، فقیہ اور باصفا بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنے والد محترم سے علم، روحانیت اور تربیت حاصل کی اور خاندانِ بخاریہ کے علمی و روحانی وقار کو برقرار رکھا۔

       حضرت سیّد عبد اللہ شاہ بخاریؒ کا وصال سن 1206ھ (مطابق 1791-92ء) کو ہوا۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

       آپؒ کے وصال کے بعد، حسبِ روایت و روحانی اہلیت کے، آپؒ کے بزرگ صاحبزادے حضرت سیّد میر غلام محی الدین بخاریؒ کو گدی نشینی عطا ہوئی۔ آپؒ نے نہایت حسنِ انتظام، اخلاق، اور روحانی حکمت سے خانوادے کے علمی و سلوکی فیض کو آگے بڑھایا اور اپنے والد گرامی کے مشن کو جاری رکھا۔ (از سیّد قاضی حامد شاہ اکبرپوری)


Comments

Popular posts from this blog

Syed Qamir Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari k Sab say Chota Sahibzada Syed Qazi Mir Ahmad Gee Sahib and Zikar Syed Qazi Shah Pasand

Syed Qazi Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari Naqashbandi Mujaddi