Syed Qazi Hafiz Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari k Farzand Syed Qazi Mir Sahibzada Gee and Syed Qazi Mir Hazrat Gee

 

v     سیّد قاضی میر صاحب زادہ جی ؒ

       آپؒ، سیّد قاضی حافظ میر غلام محی الدین بخاریؒ کے فرزندِ ارجمند تھے اور والدِ محترم کے وصال کے بعد آپؒ ہی نے گدیِ ارشاد و خلافت سنبھالی۔ علوم و فنون کی تکمیل کے بعد حسبِ روایت افتاء، تدریس، اور قضا کے امور میں مصروف ہوئے، اور اپنے اسلاف کے طرز پر اوراد و وظائف میں ہمیشہ مشغول و سرگرم رہے۔آپؒ ایک طویل مدت تک حضرت اخوند پنجو باباؒ کے مزارِ مبارک پر حاضری دیتے، روحانی فیض حاصل کرتے اور دل کو جِلا بخشتے۔ والدِ محترم کے انتقال کے بعد جب دل میں تزکیۂ نفس کا جذبہ مزید بڑھا تو آپؒ نے شیخ عبد الغفور بابا جی صاحبؒ (اخوند صاحب سوات والے) سے بیعت کی اور ان سے اجازت و خلافت حاصل کی۔

       پچاس سال تک مسلسل ریاضت، عبادت، شب بیداری، اور سحر خیزی میں مشغول رہے۔ دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ اگر رات کے کھانے کا انتظام ہو جاتا تو اگلے دن کی فکر نہ کرتے، اور اگر روئی کا سادہ کپڑا میسر آتا تو ریشم کی طرف نگاہ بھی نہ کرتے۔ ہر حال میں شاکر اور اللہ کی یاد میں مصروف رہتے۔مرشد سے عشق کی یہ کیفیت تھی کہ جب چند دن بھی ان سے دُور رہتے، تو دل بے چین ہو جاتا اور آپؒ بے اختیار ہو کر اُن کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ اسی محبت کی شدت کو آپؒ یوں بیان فرمایا کرتے:

رشتہ درگردنم افگندہ دوست

                                         مے برد ھر جا کہ خاطر خواہ دوست

                مرشد سے قربت اور  حضرت اخون پنجو بابا ؒ کی زیارت کی اہمیت

       جب بھی آپؒ خفا یا پریشان ہوتے تو ہمیشہ اپنے پیر اول یعنی حضرت اخوند پنجو بابا صاحبؒ کی زیارت میں خود کو مشرف کرتے۔ ایک دن فرطِ محبت و کشش کی وجہ سے آپؒ بغیر اخوند پنجو بابا صاحبؒ کی زیارت کیے، سیدھے اپنے مرشد، شیخ عبد الغفور بابا جی صاحبؒ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گئے۔ مگر مرشد پاک کی مکاشفانہ بصیرت نے فوراً معلوم کر لیا کہ جہاں بادشاہ قائم ہوتا ہے وہاں گدا کی طرح پیش آنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انہوں نے نصیحت فرمائی کہ "تمہیں چاہیے تھا کہ پہلے اخوند پنجو بابا صاحبؒ کی زیارت کرتے، اس سے پہلے کہ میرے لیے آنے کی تکلیف اٹھاؤ۔"

       یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت شیخ عبد الغفور بابا جی صاحبؒ کے دل میں حضرت اخوند پنجو بابا صاحبؒ کے لیے کتنی تعظیم و احترام کا جذبہ تھا۔ اس سلسلے کی گہرائی اسی بات میں بھی جھلکتی ہے جو مشہور صوفی بزرگ شیخ محمد شعیب المعروف صاحب زادہ صاحبؒ نے اپنی کتاب مراۃ الاولیاء میں بیان کی ہے۔ اُن کے مطابق طریقت کا سلسلہ اخوند صاحبؒ تک ایک مبارک راستے سے پہنچتا ہے، جو مختلف روحانی سلسلوں جیسے نقشبندیہ، طیفوریہ، صدیقیہ، اور قادریہ جنیدیہ کے ذرائع سے منسوب ہے۔شیخ عبد الغفور صاحبؒ کا اپنا رجحان باطنی طور پر آپؒ کی طرف زیادہ تھا، جس کا اثر سلسلہ مرشدی میں بھی نمایاں ملتا ہے۔ سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ فرماتے ہیں کہ ان کے والد محترم صاحب زادہ کی بہت دلی خواہش تھی کہ ان کی نسل بھی اپنے پیر و مرشد کے گرویدے بن جائے۔ اسی سلسلے میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک دفعہ والد محترم سوات جا رہے تھے تاکہ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوں، اور چھ سالہ میر احمد شاہ رضوانیؒ کو اپنے ساتھ لے گئے۔میر احمد شاہ رضوانیؒ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ سیدو شریف پہنچے اور شیخ عبد الغفور بابا جی صاحبؒ کی زیارت حاصل ہوئی تو ان کے والد محترم جنوبی مسجد کے صحن میں چارپائی پر دست بوسی اور ورد میں غرق تھے، جبکہ ہزاروں زائرین مسجد کے صحن میں منظم انداز سے دعاؤں کے لیے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اُنہیں قریب سے سیڑھیوں کے ذریعے خصوصی افراد کے پاس بُلایا جاتا۔ جب پیر و مرشد اپنے حجرہ مبارک شیخان میں منتقل ہوئے تو سخت نگرانی کی جاتی تاکہ کوئی غیر مجاز داخل نہ ہو جائے، اس دوران، میر احمد شاہ رضوانیؒ نے اپنے والد کا دامن تھاما۔ شیخان کے بزرگ نے انہیں سکوت سے سنا۔ جب والد محترم کو تلقین ہوئی اور باری اُن پر پہنچی تو شیخان صاحب نے فرمایا کہ "چھوٹے، تم بھی بیعت کرتے ہو"۔ میر احمد شاہ رضوانیؒ نے عاجزی سے عرض کیا کہ "ابھی میں بچہ ہوں، اور طریقت کے آداب و اختیاط میری سمجھ سے باہر ہیں۔ لیکن میں آپؒ کے چند حروف تبرک پڑھوں گا۔" اسی وقت اُن کے لیے ایک باب مناسخہ سے سبق پڑھایا گیا اور اُن کے حق میں دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ انہیں عالم و فاضل بنا دے اور اپنے سینے پر بازو مبارک رکھ دے۔اگرچہ میر احمد شاہ رضوانیؒ چاہا کرتے تھے کہ مرشد کی مزید دیدار کریں، مگر سیاست و دبدبہ کے باعث ان کی آنکھیں اُٹھ نہ سکیں۔ رخصتی سے پہلے والد محترم نے بہت زور دیا کہ اکبرپورہ کے غوث، حضرت اخوند پنجو بابا صاحبؒ کی زیارت کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دیں، کیونکہ وہ دل کی آئینہ مسقل ہیں۔ اسی کی بنیاد پر، مرگ والد محترم کے قریب آتے ہی میر احمد شاہ رضوانیؒ کو وصیت ملی کہ بابا کی زیارت ہمیشہ جاری رکھیں اور اپنے حق میں دعائیں مانگتے رہیں۔

                حضرت سیّد میر قاضی صاحب زادہ جی صاحبؒ کی وفات

     حضرت سیّد میر قاضی صاحب زادہ جی صاحبؒ کی وفات ماہ صفر 1308ھ کو نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد واقع ہوئی۔ آپؒ کا وصال ایک خاص روحانی کیفیت میں ہوا، جب کہ آپؒ مرضِ اسہال میں مبتلا تھے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق:

       "جو شخص اسہال (پیچش) کے مرض میں وفات پائے، وہ شہید کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔"یعنی حضرت قاضی صاحب زادہ جیؒ نے شہادت کے مقام پر وصال فرمایا۔جب آپؒ کی نزع کی حالت تھی، تو زبانِ مبارک پر مسلسل یہی الفاظ جاری تھے:

                "مبارک باد، مبارک باد!"

       گویا آپؒ کو وصال کے وقت جو بشارتیں حاصل ہو رہی تھیں، اُن پر دل کی گہرائی سے خوشی کا اظہار فرما رہے تھے۔ کچھ ہی لمحوں بعد آپؒ نے اس فانی دنیا سے آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کیں اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ

       حضرت کے فرزندان

       اللہ تعالیٰ نے حضرت سیّد میر قاضی صاحب زادہ جیؒ کو تین صاحبزادگان سے نوازا، جو درج ذیل ہیں:

1.      سیّد میر افضل شاہؒ  

       سیّد میر افضل شاہ رحمۃ اللہ علیہ، میر صاحب زادہ جی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں سے نوازا ۔ سیّد نور احمد شاہ، سیّد احمد شاہ۔ سیّد نور احمد شاہ کی کوئی اولاد نہ تھی، جبکہ سیّد احمد شاہ کے ایک صاحبزادے تھے، سیّد قاضی میر عبد اللہ شاہ۔ اللہ تعالیٰ نے سیّد قاضی میر عبد اللہ شاہ کو چھ بیٹوں سے نوازا، سیّد قاضی شریف گل، سیّد قاضی محب گل، سیّد قاض حنیف گل، سیّد قاضی بشیر گل، سیّد قاضی نزیر گل اور سیّد قاضی آنار گل۔ یہ تمام حضرات اکبرپورہ میں آباد ہیں اور اپنے بزرگوں کی علمی، روحانی اور خاندانی وراثت کے امین ہیں۔

2.      سیّد میر سلطان احمد شاہ

آپؒ زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔ دنیا سے بے رغبت، عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے والے اس ولی صفت انسان کی سیرت قابلِ تقلید تھی۔ تاہم، اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔

3.      شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ

       آپؒ ایک بلند پایہ عالمِ دین، محدث اور صوفی بزرگ تھے۔ اپنے علمی و روحانی مقام کے باعث "شمس العلما" کے لقب سے معروف ہوئے۔آپ کی شخصیت پر ایک تفصیلی باب آگے پیش کیا جائے گا۔اس مقام پر آپؒ کے صاحبزادگان اور نواسوں کا مختصر تذکرہ درج کیا جا رہا ہے۔

سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ، میر صاحب زادہ جیؒ کے سب سے ہونہار اور پیدائشی ولی صفت بزرگ تھے، جن کا تفصیلی ذکر آگے کے ابواب میں پیش کیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں سے نوازا۔ سیّد قاضی میر عبدالسلامؒ، سیّد قاضی میر عبدالحيؒ، سیّد قاضی میر اعظم شاہ بیدلؒ، سیّد قاضی میر فضل حق، سیّد قاضی میر عبد الحقؒ۔

       میر عبدالسلامؒ، میر فضل حقؒ اور میر عبد الحقؒ کی اولاد کے بارے میں تحقیق تاحال جاری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا تو ان کے متعلق مزید معلومات حاصل ہو سکیں گی۔تاہم، غالب امکان یہی ہے کہ ان میں سے بعض کے ہاں اولاد نہیں ہوئی۔ میرے والدِ محترم سیّد قاضی روخان شاہ صاحب کے مطابق، ان میں سے ایک بزرگ کو کسی نے دریا میں شہید کر دیا تھا۔ ایک اور بزرگ کے بارے میں اتنا معلوم ہوا ہے کہ وہ اضاخیل متنی کی طرف ہجرت کر گئے تھے، جہاں ان کی اولاد آج بھی آباد ہے—واللہ اعلم بالصواب۔

       باقی دو صاحبزادگان کا تفصیلی ذکر ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

1.       سیّدقاضی  میر عبد الحیؒ  

       شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے سب سے بڑے صاحبزادے کا نام سیّد قاضی میر عبد الحیؒ تھا۔

آپ 1894ء میں اپنے آبائی گھر محلہ قاضیان (اکبرپورہ) میں پیدا ہوئے۔ علم و فضل، زہد و تقویٰ اور سادگی آپ کی شخصیت کا نمایاں حصہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک صاحبزادے سے نوازا۔ سیّد قاضی میر عبد القیوم صاحب، جو 1928ء میں محلہ قاضیان میں ہی پیدا ہوئے۔سیّد قاضی میر عبد الحیؒ 1948ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

       سیّد قاضی میر عبد القیوم صاحبؒ، سیّد قاضی میر عبد الحیؒ کے اکلوتے فرزند تھے۔ میں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، ایک باوقار، بردبار، رحم دل اور نہایت بااخلاق شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی طبیعت میں لوگوں کے لیے بے پناہ رغبت اور اخلاص پایا جاتا تھا، جو ان کی زندگی کا خاصہ بن چکا تھا۔وہ اکثر اپنے آباؤ اجداد کے قائم کردہ ہجرے میں بیٹھا کرتے تھے، جسے اپنی ذاتی آمدنی سے چلاتے تھے۔ یہ ہجرہ صرف ایک بیٹھک نہ تھی، بلکہ ایک مرکزِ فیض تھا جہاں علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد ہر وقت موجود رہتی۔ ہر فرد، خواہ کسی بھی طبقے سے ہو، یہاں سے اپنی "قسمت کا حصہ" پا کر جاتا۔ ان کے حسنِ سلوک، اخلاص اور خدمتِ خلق کی وجہ سے لوگ ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔سیّد قاضی میر عبد القیوم صاحبؒ کو سب "قیوم خان" کے نام سے جانتے تھے، اور وہ درحقیقت ہر پہلو سے "خان" ہی تھے—عزت، وقار، سخاوت اور مروّت کے پیکر۔اللہ تعالیٰ نے انہیں تین بیٹوں سے نوازا۔ سیّد علی اصغر شاہ، سیّد علی حیدر شاہ اور سیّد علی اکبر شاہ۔ بدقسمتی سے، علی اصغر اور علی حیدر بچپن ہی میں وفات پا گئے۔

ان کا تیسرا بیٹا، سیّد علی اکبر شاہ، الحمدللہ حیات ہیں اور محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ سیّد علی اکبر شاہ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عطا فرمائے۔ سیّد جہانذیب شاہ اور سیّد راشد علی شاہ۔ یہ دونوں اکبرپورہ کے علاقے اعظم آباد میں مقیم ہیں۔

سیّد جہانذیب شاہ کو اللہ تعالیٰ نے انجینئرنگ کے میدان میں غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا۔ ان کی قابلیت کا اعتراف نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی کیا گیا۔ دنیا کے مختلف ممالک کی معروف کمپنیوں نے انہیں ملازمت کی پیشکشیں کیں، اور وہ اس وقت بھی بیرونِ ملک کامیابی کے ساتھ برسرِ روزگار ہیں۔دوسری طرف، سیّد راشد علی شاہ اپنے آباؤ اجداد کی وراثتی زمینوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کر رہے ہیں، اور خاندانی وقار و اقدار کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

       سیّد قاضی میر عبد القیوم صاحبؒ 16 اپریل 2007ء، بروز جمعہ، اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کا انتقال ایک بڑے روحانی، سماجی اور خاندانی خلا کا باعث بنا، جسے اب بھی محسوس کیا جاتا ہے۔

2.      سیّد قاضی میر اعظم شاہ بیدل ؒ

       شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے دوسرے صاحبزادے کا نام سیّد قاضی میر اعظم شاہ بیدلؒ تھا۔آپ اپنے وقت کے جید صوفی شاعر تھے، جنہیں فارسی، عربی، اردو، اور پشتو زبانوں پر عبور حاصل تھا۔آپ کی شاعری نہ صرف صوفیانہ اسرار و رموز سے مزین تھی بلکہ روحانی اثر اور فکری گہرائی سے بھرپور تھی۔ان کی شاعری کا ایک زندہ ثبوت ان کے والدِ محترم کے مرقد مبارک پر کندہ کیے گئے فارسی اشعار ہیں، جو آج بھی ان کی فکری عظمت، ادبی ذوق اور روحانی بصیرت کا پتہ دیتے ہیں۔ ان اشعار کو نہایت خوبصورت انداز میں مرقد پر تحریر کیا گیا ہے، جو آنے والے زائرین کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔

                                       وَا دریغآ آفتابِ علم و فـــــــضل

                             میر احمد شاہ شد ادر سالِ حال

                             سیّد ســـاداتِ رضــــوانی برفت

                             قاضــــی دوراں ادیب بمــــــثال

                             پـــیر و دین رســــول دوســـرا

                             رہرو راہ خـــدائے ذوالــــجلال

       مفہوم (نثری ترجمہ)

     ہائے افسوس! علم و فضل کا سورج غروب ہو گیا،

       میر احمد شاہ اسی سال اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

       ساداتِ کرام کے چراغ، رضوانی سیّد، اس دنیا سے چلے گئے۔

       زمانے کے قاضی، ادیب اور مثال بننے والے، دنیا سے رخصت ہو گئے۔

       وہ پیر و دین، رسولِ اکرمؐ کے مشن کے سچے پیروکار اور دوسرا نمونہ بننے والے تھے۔

       وہ خدا کی راہ کے رہرو تھے، اور اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات کے مظہر تھے۔

       سیّد قاضی میر اعظم شاہ بیدلؒ کو اللہ تعالیٰ نے 9 بیٹوں سے نوازا۔ ان میں سے کچھ بیٹے بچپن یا جوانی میں ہی وفات پا گئے جن کے نام میر زمان شاہ، میر عبد الحمیدشاہ، میر مسلم شاہ اول اور میر ہدایت شاہ۔  ان چار بیٹوں کی عمر مختصر رہی اور وہ بچپن یا جوانی میں وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد، باقی پانچ بیٹوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو زیادہ عمر پانے والے اور دینی و دنیاوی اعتبار سے معروف ہوئے۔ان میں سے پانچ بیٹوں کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:

1.      سیّد قاضی رضوان شاہ ( ایک فکری و روحانی ورثے کا امین)

       سیّد قاضی رضوان شاہ ۳ مارچ ۱۹۳۲ء کو اپنے آبائی گھر محلہ قاضیان، اکبرپورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک سادہ مزاج، مہربان اور علمی ذوق رکھنے والے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں علم و طب کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ طب (یونانی) اور ہومیوپیتھک کے میدان میں انہیں غیر معمولی مہارت حاصل تھی، اور یہ مہارت نہ صرف ان کے علاج میں جھلکتی تھی بلکہ لوگوں کا ان پر اعتماد بھی اسی مہارت کا ثبوت تھا۔

                اولاد

                اللہ تعالیٰ نے سیّد قاضی رضوان شاہ کو چار بیٹوں سے نوازا۔

                سیّد قاضی جہانگیر شاہ ، آپ ایک بینک میں ملازم ہے اور اپنی محنت، دیانت داری اور پیشہ ورانہ خدمات کے لیے جانے جاتے            ہیں۔

       سیّد قاضی عالمگیر شاہ ، آپ واپڈا میں اعلیٰ افسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام رہے ہیں اور انتظامی و فنی ذمہ داریوں میں قابل           ذکر کردار ادا کیا۔

                سیّد قاضی معظم شاہ ، آپ بیرون ملک مقیم ہیں اور وہاں پیشہ ورانہ طور پر سرگرم عمل ہیں۔

       سیّد قاضی ناصر شاہ ، آپ بھی بیرون ملک ہیں اور رزقِ حلال کی تلاش میں وطن سے دور لیکن دل سے اپنے ورثے اور قریبی            رشتہ داروں سے جُڑے ہوئے ہیں۔

     ان کا آبائی گھر آج بھی اعظم آباد (اکبرپورہ) میں موجود ہے، جو ان کے خاندانی ورثے کی نشانی ہے، اگرچہ وہ فی الوقت پشاور میں           مقیم ہیں۔

                ایک درد بھرا واقعہ (علمی میراث کا افسوسناک زیاں)

     آپ کی زندگی کا ایک واقعہ، جو میرے آنکھوں دیکھا ہے، اپنے اندر ایک گہرا دکھ، ندامت اور فکری بیداری سموئے ہوئےہے۔ایک دن جب میں نے سیّد قاضی رضوان شاہ سے ان کے دادا شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے متعلق دریافت کیا، تو وہ شدتِ جذبات سے رونے لگے۔ ان کی آنکھوں میں اپنے بزرگوں سے محبت اور ان کے علمی ورثے کی عظمت کا احساس نمایاں تھا، فرمانے لگے کہ                                                                                                       

       "کاش ہم اہل ہوتے اور ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کے قابل ہوتے، تو آج اس صوبے کی سطح پر قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے کتب پر مشتمل ایک عظیم لائبریری ہوتی،  لیکن ہم نالائق نکلے، ہم نے اپنی علمی وراثت کی قدر نہیں کی، اور یوں سب کچھ ضائع ہو گیا۔"

       اسی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے، انہوں نے ایک خاص واقعہ سنایاکہ ان کے دادا سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ نے سعودی عرب سے ایک نہایت قیمتی اور وزنی کتاب منگوائی تھی، جو ہمیشہ ان کے ہمراہ رہتی تھی، چاہے وہ سفر میں ہوں یا اپنی روحانی گدی پر، یہ کتاب اتنی بڑی اور بھاری تھی کہ جب ان کےچھوٹے بھائی جعفر شاہ  اور میں نے ےیعنی رضوان شاہ نے اسے بیچنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے بمشکل اسے اُٹھا کر گدھا گاڑی پر لادا اور بیچ دیا۔

       یہ واقعہ سناتے ہوئے سیّد قاضی رضوان شاہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ فرمانے لگے"خدا جانے وہ کتاب کس علم پر تھی ، ہم اس کی اہمیت، وزن، اور مقصد کو سمجھنے سے قاصر تھے، اور یوں ہم نے شاید ایک خزانے کو اپنے ہاتھوں سے کھو دیا۔"

       خلاصہ

       سیّد قاضی رضوان شاہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے بظاہر اپنی زندگی کو دنیاوی سادگی میں گزارا، لیکن دل کے اندر اپنے اجداد کی علمی و روحانی وراثت کے لیے بے پناہ احترام رکھتے تھے۔ ان کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ماضی کی عظمت کو زندہ رکھنے کے خواہاں تھے، لیکن ساتھ ہی اپنے دور کے تقاضوں کے زیرِ اثر اس وراثت کو بچا نہ پائے – جو کہ بہت سی علمی و روحانی خانوادوں کی مشترکہ کہانی ہے۔

                سیّد قاضی رضوان شاہ کا وصال اور تدفین

       سیّد قاضی رضوان شاہ، جنہوں نے اپنی پوری زندگی سادگی، علم، خدمت اور روحانی محبت کے ساتھ گزاری، بالآخر ماہِ مقدس رمضان المبارک میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ یہ بابرکت دن تھا 19 اپریل 2022ء  جب یہ چراغِ خاندانی بجھ گیا، لیکن اپنے پیچھے ایسی روشنی چھوڑ گیا جو ان کے کردار، باتوں اور جذباتی وابستگی کے ذریعے آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔

       رمضان کا مہینہ، جسے رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ کہا جاتا ہے، خود اس بات کی گواہی ہے کہ مرحوم کی روحانی حیثیت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق نہایت گہرا اور پاکیزہ تھا۔ ایسے ماہ میں وفات پانا بہت بڑی سعادت اور قبولیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

                قبر کی جگہ – روحانی نسبت کی علامت

       مرحوم کی وصیت یا خاندانی خواہش کے مطابق، انہیں ان کے دادا جان، شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ ان کی قبر مبارک، دادا جان کی مغربی سمت میں واقع ہے۔یہ محض ایک جغرافیائی ترتیب نہیں، بلکہ روحانی اور قلبی وابستگی کی وہ نشانی ہے جسے خاندان کی تاریخ میں ایک قابلِ فخر حوالہ سمجھا جائے گا۔سیّد قاضی رضوان شاہ ہمیشہ اپنے دادا کی عظمت، علم، تقویٰ اور خدمات کو عقیدت و احترام سے یاد کرتے رہے، اور خود کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کے لائق نہ سمجھتے ہوئے بارہا ندامت کا اظہار کرتے تھے۔اور آج، وہی سیّد قاضی رضوان شاہ، اسی بزرگ ہستی کے پہلو میں، ان کے سائے میں، ان کے روحانی اثر کے قریب آرام فرما رہے ہیں۔ گویا یہ مقام ان کے اخلاص کی تکمیل اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے لیے شرفِ قبولیت کا ایک نشان ہے۔

2.      سیّد قاضی میر خادم شاہ(وفا، محبت اور خاندانی انسیت کا پیکر)

     سیّد قاضی میر خادم شاہ، شمس العلماء کے پوتے اور صوفی شاعر سیّد قاضی میر اعظم شاہ بیدلؒ کے دوسرے نمبر پر بیٹے تھے۔ آپ ایک خاموش مزاج، باوقار، اور محبت سے بھرپور انسان تھے۔ دنیاوی نمود و نمائش سے دور، لیکن روحانی گہرائیوں سے لبریز۔ آپ کی شخصیت میں وہ درمیانی نسل کے سادات کا خلوص، وقار، اور سادگی صاف دکھائی دیتی تھی جو اپنے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں کی تربیت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔

       اولاد اور سکونت

       اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے سے نوازا، جن کا نام ہےسیّد اصغر علی شاہ جو آج بھی اعظم آباد (اکبرپورہ) میں مقیم ہیں، اور اپنے والد بزرگوار کی روایات، وقار، اور خاندانی تعلقات کی لاج رکھتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔

       رشتہ داروں سے محبت (چند مثالیں)

       سیّد قاضی میر خادم شاہ کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو خاندانی رشتہ داروں سے بے پناہ محبت اور احترام تھا۔ یہ محبت محض زبانی نہ تھی، بلکہ عملی نمونوں اور روزمرہ کے طرز عمل سے جھلکتی تھی۔ یہاں ان کی محبت کی چند جیتی جاگتی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

·         رشتہ داروں کی عیادت کو فرض جاننا: وہ اکثر بیمار یا ضعیف رشتہ داروں کی باقاعدگی سے عیادت کرتے، چاہے وہ قریبی ہوں یا دور کے عزیز۔ ان کے پاس وقت کم ہوتا، مگر محبت کی کوئی حد نہ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بیماروں کے چہروں پر مسکراہٹ لانا گویا عبادت ہے۔

·         ہر خوشی و غمی میں پہلا شریک : کسی بھی رشتہ دار کی خوشی ہو یا غم، سیّد خادم شاہ سب سے پہلے پہنچتے۔ ان کی موجودگی کو لوگ اپنے لیے باعثِ سکون سمجھتے، کیونکہ وہ صرف رسمی شرکت نہیں کرتے تھے، بلکہ دل سے شریک ہوتے۔

·         سب کو برابر سمجھنا: رشتہ داروں میں کبھی کسی سے فرق روا نہ رکھتے۔ ہر چھوٹے بڑے کو ایک ہی احترام و محبت سے ملتے۔ ان کے لہجے میں شائستگی اور گفتگو میں شفقت ہوتی۔ یہ خوبی آج بھی ان کے بیٹے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

·         اپنے والد کے عقیدتمندوں سے خاص انسیت:جو افراد ان کے والد سیّد اعظم شاہ بیدلؒ سے محبت رکھتے تھے، اُن سے سیّد خادم شاہ کی محبت اور بھی بڑھ جاتی۔

·         سادگی میں عظمت:وہ سادہ لباس پہنتے، لیکن ان کے انداز، نشست و برخاست اور گفتگو میں ایسی روحانی شائستگی ہوتی کہ لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔ ان کے کردار میں "ساداتِ عظام" کی جھلک نظر آتی تھی۔

       خاندانی غیرت کا ایک باب(جنگیالو قوم سے جھگڑے کا واقعہ)

       محلہ قاضیان میں ایک بار جنگیالو قوم کے چند افراد نے قاضی روخان شاہ سے معمولی بات پر بدتمیزی اور جھگڑا شروع کیا۔ جب یہ بات سیّد قاضی میر خادم شاہؒ تک پہنچی، تو آپ نے فوراً تمام برادری کو اکھٹا کیا اور ایسی جرأت و دلیری سے ان کا سامنا کیا کہ جنگیالو قوم کی خوب درگت بنائی گئی۔ اس واقعے کے بعد وہ کبھی دوبارہ کسی کے خلاف بولنے یا سر اُٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔ یہ واقعہ آج بھی محلے میں کافی لوگوں کا چشم دید ہے اور سیّد خادم شاہؒ کی غیرت و قیادت کی روشن مثال ہے۔ دوسری مثال سیّد قاضی میر خادم شاہؒ کی عاجزی، خلوص اور خاندانی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت موبائل فون کا رواج نہ تھا، جب ایک ایمرجنسی صورتحال میں میری بہن کو ہسپتال لے جایا گیا۔ والد محترم نے پی ٹی سی ایل فون کے ذریعے سیّد خادم شاہؒ کو اطلاع دی۔ اطلاع ملتے ہی سیّد خادم شاہؒ نے خود ہمارے گھر آ کر خبر دی کہ مریضہ ہسپتال میں داخل کر دی گئی ہے۔ یہ انتہائی بااخلاق، عاجزانہ اور درد دل رکھنے والے انسان کی علامت تھی۔ ان کا یہ عمل آج بھی ہمیں رشتہ داری، اخلاص اور فرض شناسی کا سبق دیتا ہے۔

       یہ واقعہ سیّد قاضی میر خادم شاہؒ کی عدل و انصاف، ہمدردی اور حق گوئی کی ایک بے مثال جھلک پیش کرتا ہے۔ خاندان کے ایک بزرگ نے مجھے اپنا یہ واقعہ سنایا کہ وہ دو بھائی تھے، مگر بڑے بھائی نے مالی حیثیت بہتر ہونے کے باوجود نہ صرف بھائی ماننے سے انکار کیا بلکہ انہیں وراثتی زمین سے بھی محروم کر دیا۔ فرماتے ہے کہ :

"اللہ تعالیٰ سیّد خادم شاہؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، انہی کی مخلصانہ کوششوں، اثر و رسوخ اور خاندانی غیرت کی بدولت نہ صرف مجھے بھائی تسلیم کیا گیا، بلکہ میرے جائز حق یعنی زمین بھی واپس دلوائی گئی۔"

یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ سیّد خادم شاہؒ صرف خاندانی فرد نہ تھے بلکہ مظلوموں کے حامی، حق داروں کے مددگار اور سچائی کے نڈر علمبردار تھے۔ ان کی یہی خوبیاں انہیں دلوں میں زندہ اور دعاؤں میں شامل رکھتی ہیں۔

       سیّد قاضی میر خادم شاہؒ کی دینی خدمات کا ایک عظیم کارنامہ "مسجد قاضیان بیرون" کی تعمیر ہے، جو نہ صرف ایک عبادت گاہ ہے بلکہ آج اکبرپورہ اور گرد و نواح میں اشاعتِ دین کا ایک روشن مرکز بن چکی ہے۔آپؒ کی دور اندیشی، اخلاص، اور خالص دینی جذبے کے تحت قائم کی گئی یہ مسجد اب ایک فعال مدرسہ میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں سے اب تک سینکڑوں حفاظِ کرام اور علمائے کرام فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں دینِ اسلام کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔یہ ادارہ آج بھی نہ صرف عبادت کا مرکز ہے بلکہ ایک روحانی و علمی سرچشمہ بن چکا ہے جس سے پورا علاقہ منور ہو چکا ہے۔ یقیناً یہ صدقہ جاریہ ہے جو سیّد قاضی میر خادم شاہؒ کے اخلاص، دینی غیرت، اور مستقبل بینی کا واضح ثبوت ہے۔

       سیّد قاضی میر خادم شاہؒ کی زندگی دین، اخلاص، اور قوم کی خدمت سے عبارت تھی، اور ان کا ایک عظیم کارنامہ قوم کا جامع اور معتبر شجرہ اکٹھا کرنا تھا۔ آپؒ نے ڈاکٹر میاں سہیل انشاء کے ساتھ مل کر گھر گھر جا کر معلومات جمع کیں، بزرگوں سے روایات لیں، دستاویزات کا مطالعہ کیا اور صدیوں پر محیط نسب نامہ مرتب کیا۔یہ شجرہ نہ صرف اکبرپورہ بلکہ پبی، فیصل آباد، چترال، چھچھ حضرو، بخارا، ترکستان، اضاخیل متنی اور دیگر علاقوں میں بسنے والے رضوانی سادات کی تاریخ، رشتہ داری اور شناخت کا قیمتی خزانہ ہے۔ ڈاکٹر میاں سہیل انشاء نے بعد میں اس شجرے کو شائع بھی کیا اور اپنی کتب میں سیّد خادم شاہؒ کا بطور مؤرخ ذکر کیا، جو ایک نادر اعزاز ہے۔یہ کہنا بجا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کا جو شجرہ آج محفوظ ہے، وہ شائد ہی کسی اور خانوادے کے پاس اس حد تک تسلسل اور تفصیل سے موجود ہو۔ یہ تمام تر محنت، اخلاص، اور قوم پروری سیّد خادم شاہؒ کی دینی و قومی بصیرت کا مظہر ہے۔

       افسوس کہ ایسی عظیم شخصیت کا دنیا سے رخصت ہونا ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ 25 اگست 1991ء، بروز اتوار، جب آپؒ دو گرہوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے آگے بڑھے، تو ایک گروہ کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کا نشانہ بنے اور شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔آپؒ کی شہادت امن، بھائی چارے، اور دین کے لیے دی جانے والی قربانی کی روشن مثال ہے، اور ان کا نام ہمیشہ قوم، اخلاص، علم اور ایثار کے حوالوں سے زندہ رہے گا۔

3.      سیّد قاضی میر جعفر شاہ ؒ  

       سیّد قاضی میر جعفر شاہ ایک باوقار، نرم خو اور نہایت فصیح اللسان شخصیت کے مالک تھے، جن کا تعلق خاندانِ رضوانی کے عظیم فرزند سیّد قاضی میر اعظم شاہ بیدلؒ سے تھا، جن کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے۔آپ 01 اپریل 1944ء، بروز اتوار اپنے آبائی گھرمحلہ قاضیان میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے ان میں علم، شرافت، ادب اور دینی رجحان نمایاں تھا۔ آپ نے بطور استاد (سکول ٹیچر) ایک مثالی کردار ادا کیا اور نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ اخلاقی تربیت میں بھی اپنے شاگردوں پر گہرا اثر چھوڑا۔آپ کے مزاج میں عاجزی، محبت، اور وسعت قلبی تھی۔ ہر مکتبہ فکر سے خلوص رکھتے، علماء کرام اور طلباء علومِ دینیہ سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اکثر اوقات علماء کی مجلس میں ان کے سامنے ہاتھ سینے پر رکھ کر جھک جاتے، جو ان کی دینی ادب اور روحانی تربیت کا مظہر تھا۔

       سیّد جعفر شاہ صاحب جامعہ تعلیم القرآن کے شورہ کے فعال ممبر بھی تھے، اور ان کا شمار ان چاک و چوبند اور پُرعزم افراد میں ہوتا تھا جو ہمیشہ قربانی، خدمت، اور وقت دینے کے لیے تیار رہتے۔ وہ نہ صرف ایک مخلص تنظیمی رکن تھے بلکہ دل و جان سے ادارے اور دین کے لیے وقف تھے۔احقر (راوی) کی زندگی میں ان سے وابستہ کئی چشم دید واقعات آج بھی ان کی شخصیت کی روشنی بکھیرتے ہیں، جنہیں آئندہ سطور میں قلم بند کیا جا سکتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے آباؤ اجداد کی سادگی، خدمت، علم دوستی، اور دینی لگاؤ سے واقف ہو سکیں۔

       چند سال قبل گاؤں اکبرپورہ کے مشہور و مقبول جامعہ مسجد و مدرسہ تعلیم القرآن و السنہ میں ایک نازک صورتحال پیدا ہوئی، جب محلے کے لوگوں کے درمیان مدرسہ کے انتظامات کے بارے میں کچھ اختلافات اور شکایات پیدا ہوئیں، جس کے نتیجے میں گاؤں دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ مدرسہ کی حمایت میں تھا جبکہ دوسرا گروہ اس کے خلاف تھا۔سیّد قاضی میر جعفر شاہؒ کا شمار مدرسہ کے حق میں کھڑے ہونے والے افراد میں تھا، اور جیسے ہی انتشار اور تنازعہ بڑھا، آپ نے اپنے عزم و حوصلے کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ایک دن آپ نے احقر کے سامنے جو جملہ فرمایا، وہ آپ کی دینی غیرت اور عزمِ راسخ کا عکاس تھا:"یہ لوگ میرے لاش پر سے گزر کر مدرسہ کو منہدم کرائیں گے۔" یہ جملہ آپ کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد، ایمان اور مدرسہ کے حق میں مضبوط عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔آپ کے اس پُرعزم اور دلیرانہ بیان کا گاؤں کے لوگوں پر گہرا اثر ہوا، اور اس کے بعد دوسرا فریق وہاں سے چلا گیا۔ آپ کی جرأت و شجاعت کے باعث، مدرسہ نہ صرف تب تک قائم و دائم رہا بلکہ تادم حیات اس پر کسی نے میلانہ نگاہ سے بھی نہیں دیکھا۔آپ کی شخصیت میں ایک ایسا روحانی جاذبیت تھی کہ آپ نہ صرف بڑے بزرگوں میں بلکہ چھوٹے طلباء میں بھی ایک محبت اور عزت کی علامت بن چکے تھے۔ ہر طالب علم آپ سے محبت، ادب، اور احترام سے پیش آتا، کیونکہ آپ کی نیکی، صداقت، اور دینی اصولوں کی اتباع کرنے والا ہر فرد، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، آپ کو ایک مثال اور رہنمائی کا منبع مانتا تھا۔

یہ واقعہ نہ صرف آپ کی بے مثال رہنمائی بلکہ آپ کے دینی جذبے، کردار اور قوتِ ارادی کا زندہ نشان ہے جو ہمیشہ مدرسہ تعلیم القرآن و السنہ کے ساتھ جڑا رہے گا۔

       ایک لطیفہ جو آپ نے  مجھے بیان کیا، ایک خوبصورت انداز میں انسانی فطرت، خواہشات اور زندگی کے مختلف رنگوں کو چھوتا ہے۔ آپ کا یہ واقعہ ایک محفل کی باتوں میں سے تھا جس میں سیّد قاضی میر جعفر شاہؒ نے اپنی مذاق اور ہنسی مزاح کی حالت میں یہ قصہ سنایا۔ اس لطیفے کے پیچھے ایک گہری سادگی اور ذاتی مشاہدے کا عنصر تھا، جو ان کی شخصیت کے ایک نرم پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔واقعہ اس طرح بیان کیا گیا تھا کہ آپ ایک دن پیر صاحب کے گھر گئے، اور وہاں جوان لڑکیوں کو پیر صاحب کی خدمت میں مصروف دیکھا۔ اس موقع پر آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ کاش آپ بھی پیر صاحب ہوتے، تاکہ ایسی خدمت اور عزت آپ کو بھی ملتی۔ یہ ایک دلچسپ مساوات کی خواہش کا اظہار تھا، لیکن جیسے ہی آپ نے یہ بات اپنی بیوی کو بتائی، تو انہوں نے مذاق میں ہی آپ کو ٹھوکا دے دیا، جس پر آپ خاموش ہو گئے۔یہ لطیفہ نہ صرف سیّد قاضی میر جعفر شاہؒ کی شگفتہ طبیعت کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ ان کی معصوم خواہشات اور خاندانی زندگی میں دلچسپی کا بھی اظہار ہے۔ اس میں ایک دینی اور دنیاوی مزاح کا توازن بھی تھا، جو ان کی شخصیت کی ایک اور نمایاں خصوصیت تھی۔ اس طرح کے چھوٹے واقعات ان کی انسانی حیثیت اور دنیاوی معاملات سے جڑے ہونے کا ثبوت تھے، جو انہیں دوسروں سے قریب کرتا تھا۔

     وفا، مزاح اور ایثار کا پیکر: قاضی جعفر شاہؒ کی دعوتِ اخلاص

       یہ واقعہ سیّد قاضی میر جعفر شاہؒ کی محبت، خاندانی وابستگی، مزاحیہ طبیعت، اور ایثار جیسے گراں قدر اوصاف کی ایک زندہ مثال ہے۔ اس کے ذریعے ان کی خاندانی وفا، دل کی وسعت اور زندگی کے آخری دنوں میں بھی قریبی رشتہ داروں کے ساتھ خلوص و تعلق کا احساس شدت سے جھلکتا ہے۔واقعہ کچھ یوں بیان ہوتا ہے کہ قاضی صفدر شاہ کے بیٹے کی شادی میں جب دعوت دی گئی تو آپؒ جسمانی کمزوری کے باوجود شریک ہوئے۔ آپ کے ساتھ احقر بھی موجود تھا، جب کہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کھانے کے لیے خود آپ کی جگہ پر کھانا پیش کیا گیا۔ لیکن اس موقع پر آپؒ نے ایثار و محبت کا جو مظاہرہ کیا، وہ سننے والوں کے دل کو چھو لینے والا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ: "یہ چاول کھانا اپنے موت کو دعوت دینے کے برابر ہے، مگر صفدر شاہ ایک غریب اور مخلص انسان ہے۔ میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کروں گا اور اس مخلص انسان کی دعوت والے چاول ضرور نوش فرماؤں گا۔"یہ جملہ ایک غریب، مگر خالص نیت رکھنے والے فرد کے احترام میں اپنی ذات کو ثانوی رکھنے کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔اس کے بعد مزاحیہ انداز میں آپؒ نے فرمایاکہ: "اگر بلال کی اماں کو پتہ لگ گیا کہ میں نے چاول کھائے ہیں تو میری خیر نہیں، مجھے کچا کھا جائے گی۔"اور پھر اپنی مخصوص ہنسی میں گویا ہوئےاور فرمایاکہ : "میں پھر بھی یہ چاول کھاؤں گا!"یہ بات سن کر تمام حاضرین ہنس پڑے، اور آپؒ کی ہنسی اتنی بے ساختہ تھی کہ آپ کو پانی دینا پڑا۔یہ واقعہ نہ صرف آپؒ کی خاندانی وفاداری اور عاجزی کی گواہی ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ آپ مزاح میں بھی اخلاق اور محبت کا دائرہ نہیں چھوڑتے تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی دوسروں کی دلجوئی اور احترامِ تعلق کو مقدم رکھا، جو آپ کی عظمتِ کردار اور اخلاقِ فاضلہ کی روشن دلیل ہے۔

                اولاد اور وفات (خوش نصیب و نیک سیرت انسان)

       سیّد قاضی میر جعفر شاہؒ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں، سیّد بلال شاہ اور سیّد اسد علی شاہ، سے نوازا۔ دونوں فرزند اکبرپورہ کے محلہ اعظم آباد میں مقیم ہیں اور اپنے والد گرامی کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آپؒ بروز منگل، 19 اپریل 2018ء کو اس فانی دنیا سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی آخری آرام گاہ، آپ کے نانا جان، شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے مزار مبارک کے مغرب کی جانب واقع ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ آپ کو اپنے بزرگوں کے قدموں میں جگہ نصیب ہوئی۔آپؒ کی وفات کے بعد مدرسہ تعلیم القرآن و السنہ سے وابستہ متعدد طلباء نے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت کے باغوں میں خوش و خرم سیر کر رہے ہیں۔ یہ مناظر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اپنی رضا و مغفرت سے نوازا۔یہاں ایک بات کہنا اگرچہ عام طور پر مناسب نہیں سمجھا جاتا، تاہم اہلِ دل کے لیے یہ ایک نصیحت اور درسِ عبرت ہے کہ آپؒ کی وفات شعبان المعظم کے بابرکت مہینے میں ہوئی، جس کے بعد رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آیا۔ اس مہینے میں احقر نے 17 مرتبہ ختم القرآن کیا اور ہر بار قرآن پاک کا ثواب سیّد قاضی جعفر شاہؒ کو ایصال کیا۔ یہ سعادت اور روحانی انعام محض انہی خوش نصیب لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جن کے اعمال اللہ کے نزدیک مقبول ہوتے ہیں۔  

4.      سیّد قاضی میر مسلم شاہؒ  (علم، محبت اور خدمت کا تسلسل)

سیّد قاضی میر مسلم شاہؒ، جن کا تعلق قاضیان کے عظیم علمی و روحانی خانوادے سے تھا، ایک باوقار، بااخلاق اور محبّت کرنے والے بزرگ تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کو نہ صرف دین و خاندان کے لیے وقف کیا بلکہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کے ذریعے اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم کو زندہ رکھا۔اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو پانچ ہونہار بیٹوں سے نوازا:

سیّد عدنان علی شاہ۔ آپؒ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ ان کا شمار خاندان کے باادب، بااخلاق اور محنتی افراد میں ہوتا ہے۔ وہ واپڈا میں ملازمت کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

سیّد انعام علی شاہ ۔ عدنان علی شاہ کے بعد پیدا ہونے والے دوسرے بیٹے ہیں۔ وہ بھی واپڈا میں ملازم ہیں اور اپنے فرائض نہایت ذمہ داری اور دیانت داری سے ادا کرتے ہیں۔ خاندان کے اندر ان کا رویہ نہایت نرم، عاجزانہ اور محبت بھرا ہے۔

سیّد سلیمان علی شاہ۔ ایک قابلِ فخر فرزند، جنہوں نے کم عمری میں اپنی تعلیمی اور ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر PMS (Provincial Management Service) کے تحت اعلیٰ ملازمت حاصل کی۔ ان کی شخصیت نظم و ضبط، وقار اور شرافت کی مثال ہے۔

سیّد نعمان علی شاہ۔ ایک متوازن اور عملی سوچ رکھنے والے فرد ہیں، جو اپنے آباؤ اجداد کی زمینوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔ وہ خاندانی اقدار کے امین اور اپنے علاقے کے معزز افراد میں شمار ہوتے ہیں۔

سیّد حمزہ علی شاہ۔ سب سے چھوٹے بیٹے ہیں جو اپنے بھائیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ وہ بھی اخلاق، خاندانی وفاداری اور عاجزی کا پیکر ہیں اور اپنے خاندان کی عزت اور وقار کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔

یہ خانوادہ آج بھی اکبرپورہ کے معزز علاقے اعظم آباد میں آباد ہے اور نہ صرف قاضیان خاندان بلکہ پورے علاقے میں عزت، محبت، اور خاندانی روایت کا روشن چراغ ہے۔ ان کی مشترکہ زندگی، ادب، عاجزی اور خدمت کے جذبے سے لبریز ہے، جو بزرگوں کی روحانی اور اخلاقی تعلیمات کا زندہ نمونہ ہے۔

5.      سیّد قاضی میر زاہد شاہؒ (علم و حکمت کا روشن چراغ)

سیّد قاضی میر زاہد شاہؒ، خاندان قاضیان کے ایک نمایاں اور قابلِ فخر فرد، 28 دسمبر 1958ء کو اکبرپورہ کے معزز محلہ قاضیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے تھا جہاں علم، روحانیت، اور طبابت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ بچپن سے ہی آپ غیر معمولی ذہانت، تجسس، اور سیکھنے کی لگن رکھتے تھے۔

علمی و پیشہ ورانہ خدمات

سیّد قاضی میر زاہد شاہؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں ہی سے حاصل کی اور اپنی محنت و لگن سے تعلیمی میدان میں تیزی سے ترقی کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بطور سکول ٹیچر محکمہ تعلیم میں شامل ہوئے، جہاں آپ بایولوجی جیسے اہم مضمون کے استاد مقرر ہوئے۔ آپ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ علمِ طب میں بھی دلچسپی لی، اور دورانِ ملازمت ڈی ایچ ایم ایس (ڈپلومہ ان ہومیوپیتھک میڈیکل سائنسز) کی سند حاصل کی۔ آپ نے ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں مہارت حاصل کی اور بہت سے مریضوں کو شفا بخشی۔

علم اور طلبہ سے خلوص

سیّد قاضی میر زاہد شاہؒ ایک مخلص، باکردار، اور درد دل رکھنے والے استاد تھے۔ وہ صرف استاد نہیں تھے، بلکہ اپنے شاگردوں کے مستقبل کو سنوارنے والا ایک رہبر، ایک معالج، اور ایک مخلص دوست بھی تھے۔آپ کی شفقت اور دل سوزی کا ایک ذاتی واقعہ ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہے ، جب میری والدہ ’’کالے ترقان‘‘ جیسے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہوئیں تو میں سخت پریشان تھا۔ اسی دوران میر زاہد شاہؒ نے میرے خاندانی حالات کو دیکھتے ہوئے، بغیر کسی معاوضے کے، اپنی ہومیوپیتھک مہارت سے علاج کیا، جس سے میری والدہ مکمل صحت یاب ہو گئیں۔ یہ احسان تا زندگی میرے دل پر ثبت رہے گا۔

طلبہ کی تربیت میں سختی کا خلوص

میر زاہد شاہؒ نہایت اصول پسند استاد تھے اور ہر طالب علم کے لیے ایک بہترین مستقبل کا خواب رکھتے تھے۔

جب میں نے آٹھویں جماعت میں پوزیشن حاصل کی تو آپؒ نے مجھے سختی سے کہا کہ تم سائنس میں داخلہ لو گے۔ابتدا میں جب مجھے سائنس مشکل محسوس ہوئی تو میں نے آرٹس کے مضامین اختیار کر لیے، مگر جیسے ہی آپ کو اس بات کا علم ہوا، آپ خود کلاس میں آئے، مجھے وہاں سے بازو سے پکڑ کر سائنس کی کلاس میں بٹھا دیا، اور سخت لہجے میں کہا:

"اگر دوبارہ آرٹس میں نظر آئے تو کھال اتار کر باہر پھینک دوں گا!"

یہ سختی محض غصے میں نہیں تھی، بلکہ اس کے پیچھے آپؒ کا بے لوث خلوص اور میرے مستقبل سے محبت تھی۔ میں نے ڈر اور عزت کے باعث سائنس جاری رکھی، اگرچہ غربت نے آگے بڑھنے نہ دیا، مگر ان کی نیت اور کوشش ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہے گی۔

ایک خواب، ایک درد، ایک پیغام

سیّد قاضی میر زاہد شاہؒ نہ صرف ایک علم دوست استاد اور مہربان معالج تھے، بلکہ ان کا دل اپنے خاندان کی ترقی و بلندی کی تمنا سے لبریز رہتا تھا۔ آپؒ ہمیشہ چاہتے تھے کہ ان کے خاندان کے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور ملک و قوم کے خدمتگار افسران بن کر ابھریں۔ایک بار مجھ سے نہایت محبت سے فرمایا:

"بیٹا! میری دلی خواہش ہے کہ ہمارے خاندان میں بڑے بڑے افسران ہوں، جن پر میں فخر کر سکوں۔"

اس خواہش کے اظہار کے بعد آپؒ نے چند تلخ مگر حقیقت پسندانہ مثالیں دیں جو ان کے دل کے درد اور اخلاص کی عکاسی کرتی تھیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ انہوں نے قاضی خوشنور (قاضی انور شاہ کا بیٹا) اور سیّد عارف شاہ (ڈاکٹر، محلہ قاضیان) کی بھرپور رہنمائی کی، انہیں سائنس پڑھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ انجینئرنگ جیسے اہم شعبے میں جا سکیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہا:

"میری ساری کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔"پھر آپؒ نے قاضی قاسم شاہ (ولد سیّد یوسف شاہؒ) کا ذکر کرتے ہوئے گہری حسرت سے کہا:"قاسم شاہ نہایت ذہین تھا، میں دل سے چاہتا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ افسر بنے۔"اس خواب کی تکمیل کی خاطر، سیّد زاہد شاہؒ نے اپنی حد سے بڑھ کر کوشش کی۔ ایک واقعہ بیان کیا کہ:"میں نے قاسم شاہ کو نصیحت کرتے کرتے یہاں تک کیا کہ ایک مرتبہ میں پیدل چل کر اخوند پنجو باباؒ کے مزار سے بھی آگے گیا اور دیر تک اس کو سمجھاتا رہا کہ بیٹا بے کار لوگوں سے بچو اور اپنی تعلیم پر توجہ دو۔"مگر آخر میں دکھ سے فرمایا:"وہ بھی بے کار گیا، اور وہ ایک لائن مین بن گیا۔"یہ الفاظ محض مایوسی کے نہیں تھے بلکہ ان میں ایک پیغام چھپا تھا—نوجوانوں کے لیے، والدین کے لیے، اور اس پورے خاندان کے لیے کہ تعلیم ہی ترقی کا راستہ ہے، اور جو مشفق بزرگ راستہ دکھاتے ہیں، اس کی قدر کرنا لازم ہے۔

عشقِ رسولؐ اور علمائے کرام سے والہانہ عقیدت

ڈاکٹر میر زاہد شاہ کی شخصیت میں جو وصف سب سے زیادہ نمایاں ہے ، وہ ان کا عشقِ مصطفیٰ ﷺ اور علمائے کرام سے بے پناہ عقیدت ہے ۔ ایک بات جو میں نے بارہا مشاہدہ کی، وہ یہ ہے کہ آپ جب بھی کوئی بات مکمل کرتے، خواہ مجلس میں ہوں یا تنہائی میں، گفتگو کے اختتام پر نہایت عاجزی سے درودِ پاک پڑھتے:

"اللہم صل علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آل سیدنا محمد و بارک و سلم"

یہ عادت آپ کی محبتِ رسول ﷺ کی گہری علامت ہے ، جو آپ کے دل میں راسخ ہو چکی ہے ۔ یہی محبت آپ کو شیخ المشائخ، پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت حضرت عزیز الرحمن ہزارویؒ کے در سے وابستہ لے گئی، جن سے آپ نے بیعت حاصل کی اور روحانی تربیت کا سفر طے کیا۔علمائے کرام کے ساتھ آپ کا برتاؤ بے حد مؤدبانہ اور محبت سے بھرپور ہوتا۔ جب بھی کسی عالم دین کی مجلس میں بیٹھتے، انتہائی انکساری سے پیش آتے اور اکثر ان کے قدموں میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے۔ آپ کے دل میں علماء کی عظمت اور دین کے خادموں کا بے حد احترام تھا۔یہ پہلو نہ صرف آپ کے کردار کو اجالنے والا ہے، بلکہ خاندان اور معاشرے کے لیے بھی ایک روشن مثال ہے کہ علم، عاجزی اور عشقِ رسول ﷺ کیسے ایک شخصیت کو کامل بنا دیتے ہیں۔

       نیک تمناؤں کا ثمر: نیک و کامیاب اولاد

       اللہ رب العزت نے ڈاکٹر میر زاہد شاہ صاحبؒ کو تین لائق، باادب اور کامیاب بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔ ان کے بڑے بیٹے سیّد قاضی میر عابد شاہ اس وقت فرانس میں مقیم ہیں اور محنت و دیانت کے ساتھ اپنے روزگار میں مصروف ہیں۔ دوسرے بیٹے قاضی میر شاہد علی شاہ نے انگلینڈ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اب سویڈن میں کامیابی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ سب سے چھوٹے صاحبزادے قاضی میر احمد شاہ نے اٹلی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب انگلینڈ میں مقیم ہیں۔یہ بات اہلِ علم سے بارہا سننے کو ملی کہ:

"جو شخص دوسروں کے بچوں کے لیے نیکی، کامیابی اور ہدایت کی دعائیں مانگتا ہے، تو اگرچہ دوسروں کے بچے نیک بنیں یا نہ بنیں، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے اپنے بچوں کو ضرور نیکی اور کامیابی عطا فرماتا ہے۔"

       ڈاکٹر میر زاہد شاہ صاحبؒ اس قول کا زندہ و روشن ثبوت ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کے بچوں کے لیے نیک تمنائیں رکھیں، ان کی تعلیم و تربیت کی فکر کی، اور اسی خلوص کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اپنے بچوں کو دنیاوی اعتبار سے کامیاب اور سیرت و کردار کے اعتبار سے نیک سیرت بنایا۔ان کا خاندان آج بھی اعظم آباد، اکبرپورہ میں آباد ہے، جہاں ان کے نام اور سیرت کی خوشبو آج بھی فضا کو معطر کیے ہوئے ہے۔

v     سیّد قاضی میر حضرت جی ؒ

                       آپؒ، سیّد قاضی حافظ میر غلام محی الدین بخاریؒ کے فرزندِ ارجمند تھے۔ آپؒ خود بھی عالمِ فاضل اور ماہر قاری تھے۔ دینِ متین کی خدمت، علمِ قرآن کی اشاعت، اور روحانی رشد و ہدایت آپ کا شعار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو صاحبزادگان سے نوازا:سیّد پیر زمان شاہؒ اور سیّد امیر شاہؒ۔ غالب گمان ہے کہ سیّد امیر شاہؒ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ دوسری طرف، سیّد پیر زمان شاہؒ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عطا فرمائے:سیّد حاجی شاہؒ ور سیّد صاحب شاہؒ۔ یہ امر بھی قرین قیاس ہے کہ سیّد صاحب شاہؒ کی بھی اولاد نہ تھی۔ البتہ سیّد حاجی شاہؒ کو اللہ رب العزت نے تین بیٹے عطا فرمائے، جن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:سیّد ابراہیم شاہؒ، سیّد محمود شاہؒ اورسیّد بہرام شاہؒ۔

       سیّد محمود شاہؒ کی کوئی اولاد نہ تھی، مگر سیّد ابراہیم شاہؒ کے تین ہونہار بیٹے تھے:سیّد محمد شاہؒ، سیّد بخاری شاہؒ اور سیّد لیاقت شاہ ۔ یہ تینوں بھائی پبی کے علاقہ ڈاگئی میں آباد ہوئے، اور وہیں ان کی نسلیں نشوونما پاتی رہیں۔ آج بھی یہ خانوادہ وہاں اپنے بزرگوں کی دینی، اخلاقی اور روحانی روایت کو نہایت خوبصورتی سے نبھا رہا ہے۔

ادھر سیّد بہرام شاہؒ کے بھی دو صاحبزادے تھے:سیّد مسکین شاہؒ اور قاضی روح الامین۔ یہ دونوں بھائی اپنے آبائی علاقے محلہ قاضیان، اکبرپورہ میں ہی مقیم رہے۔ ان کی نسلیں آج بھی وہیں آباد ہیں، اور اپنے نیک اسلاف کی روحانی وراثت، خدمتِ دین اور اخلاقی وقار کا مسلسل مظہر ہیں۔یہ پورا خانوادہ درحقیقت اس روشن چراغ کا تسلسل ہے جو قاضی میر غلام محی الدین بخاریؒ نے علم، تقویٰ اور خدمتِ خلق سے روشن کیا تھا، اور آج بھی ان کی نسل میں وہ نورِ علم و نسبت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Syed Qamir Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari k Sab say Chota Sahibzada Syed Qazi Mir Ahmad Gee Sahib and Zikar Syed Qazi Shah Pasand

عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددی خلیفہ مجاز حضرت محمد یخیٰ المعروف حضرت جی اٹک /Syed Qazi Abdullah Shah Bukhari Naqashbandi

Syed Qazi Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari Naqashbandi Mujaddi