شمس العلماء ابو الصفاء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانی ؒ Shamsul Ulama Syed Qazi Mir Ahmad Shah Rizwani
شمس العلماء ابو الصفاء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانی ؒقضاۃ اکبرپورہ اور خانوادہ بخاریہ کی عدالتی خدمات تاریخی تسلسل کے ساتھخانوادہ سیّد قاضی میر عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندیؒ نہ صرف روحانی و علمی فیض کا مرکز رہا بلکہ عدالتی و انتظامی خدمات میں بھی ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس خانوادے کے کئی جلیل القدر افراد کو مختلف ادوار میں افغان سلاطین اور حکمرانوں کی طرف سے قاضی جیسے اہم عہدے پر فائز کیا گیا، جو ان کے تقویٰ، علم و فضل اور عدل و انصاف کے مظہر تھے۔قضاۃ بخاریہ کی ترتیب وار خدمات:سیّد قاضی میر غلام محی الدین بخاریؒ حضرت سیّد قاضی میر عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندیؒ کے بڑے صاحبزادے تھے۔ ان کی علمی وجاہت اور دیانت داری کی بنیاد پر افغان بادشاہ شاہ زمان نے ربیع الاول 1217ھ / جولائی 1802ء میں اُنہیں قاضی مقرر فرمایا۔ بعد ازاں، شاہ محمود کے دور میں بھی انہوں نے یہی خدمات انجام دیں۔سیّد قاضی میر صاحبزادہ جیؒ ، سیّد قاضی غلام محی الدین بخاریؒ کے فرزند اور میر احمد شاہ رضوانیؒ کے والد تھے۔ ان کی تقرری مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کے پشاور میں تعینات اطالوی گورنر جنرل ایویٹابیل کے حکم سے قاضی کے منصب پر ہوئی۔سیّد قاضی میر احمد جیؒ میر احمد شاہ رضوانیؒ کے چچا، جو امیر دوست محمد خان کے بھائی سردار محمد اعظم خان (1767-68ء) کے مختصر دور حکومت میں قاضی مقرر کیے گئے۔میر احمد شاہ رضوانیؒ اسی خانوادے کے چشم و چراغ اور قضاۃ اکبرپورہ کے آخری ممتاز فرد، جنہوں نے علمی، عدالتی اور روحانی خدمات کو یکجا کر کے ایک تابندہ مثال قائم کی۔تاریخی شواہد:ان حضرات میں سے بعض کی شاہی تقرری کے چارٹرز (فرامین) آج بھی محفوظ ہیں اور کاتبِ خاندان کے قبضے میں موجود ہیں، جو اس روایت کی تاریخی صداقت کا زندہ ثبوت ہیں۔دیگر ممتاز علماء و مشائخ (غیر قاضی مگر معروف علمی شخصیات):سیّد قاضی میر میاں عزیز الدین بخاریؒ – میر عبد الرحمٰن بخاریؒ کے دوسرے فرزند، علومِ دینیہ میں ممتاز۔میاں عنصر صاحب قریشی نقشبندیؒ – سیّد قاضی میر عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندیؒ کے بہنوئی، اہلِ سلوک و طریقت۔سیّد قاضی میر شرف الدین بخاریؒ – صاحبِ حال، مجذوب و کامل بزرگ، جن کا روحانی فیض آج بھی جاری ہے۔سیّد قاضی میر غیاث الدین بخاریؒ – سیّد غلام محی الدینؒ کے برادرِ خورد، علم و حلم کے جامع۔میر عبد الرحمٰن بخاریؒ – خانوادۂ بخاریہ کے ابتدائی مشاہیر میں سے، جن سے علم و قضا کی بنیادیں استوار ہوئیں۔میر احمد شاہ رضوانیؒ – آخری فرد جنہوں نے قضا اور روحانیت کو یکجا کر کے رضوانی شاخ کی بنیاد رکھی۔حضرت سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی حیات و خدمات11اپریل 1860ء بروز بدھ کی رات، اللہ تعالیٰ نے سیّد قاضی میر صاحب زادہ جی بخاری نقشبندیؒ کے گھر ایک روحانی و علمی جہان کی نوید دی۔ اس مبارک شب کو، جس میں دنیا میں سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی پیدائش ہوئی، اس خاندان کا مقام مزید بلند ہوا۔ آپ کی پیدائش نے اس عظیم گھرانے کی علمی اور روحانی وراثت کو اور زیادہ روشن کیا، جو پہلے ہی اپنے اعلیٰ کردار اور دینی خدمات کے لئے معروف تھا۔کنیت: صفا:سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی کنیت صفا تھی، جسے آپ نے اپنی شاعری میں بھی استعمال کیا۔ یہ کنیت آپ کی روحانیت اورسادگی کی علامت تھی۔ابتدائی زندگی اور تعلیم:سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ نے اپنی ابتدائی زندگی اپنے آبائی گاؤں اکبرپورہ میں گزاری۔ آپ بچپن سے ہی بہت ذہین تھے، جس کی بدولت آپ نے اپنے والد محترم اور علاقے کے دیگر علماء کرام سے ابتدائی مروجہ علوم حاصل کیے۔ آپ کا علم و فضل اور ذہانت اس قدر تھی کہ آپ نے چھوٹی عمر میں ہی اپنے علوم میں مہارت حاصل کر لی تھی۔سیدو شریف (سوات) کی سیاحت:جب آپ نو سال کے تھے، آپ اپنے والد محترم کے ساتھ سیدو شریف (سوات) کے مشہور بزرگ، آخوندزادہ عبدالغفور المعروف سیدو باباجیؒ سے ملنے گئے۔ یہ بزرگ شخصیت آپ کے والد محترم کے استاد اور بہت سخت شاگرد تھے۔ سیدو بابا جیؒ نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ ان کے شاگرد یعنی مرید بننے کے لئے تیار ہیں؟اس وقت میر احمد شاہ رضوانیؒ نے جواب دیا کہ وہ ابھی بچہ ہیں اور ان کی ذہنی ترتیب اس حد تک مستحکم نہیں کہ وہ استاد کی ترتیب کو صحیح طریقے سے برقرار رکھ سکیں۔ ان دنوں آپ عربی کی کتاب "سراجی" پڑھ رہے تھے۔ سیدو بابا جیؒ نے آپ سے اس کتاب کا کچھ حصہ بطور احسان سکھایا، جس کے بعد وہ آپ کے استاد بن گئے اور آپ نے ان سے مزید علم حاصل کیا۔علمی سفر:میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی و روحانی تربیت کا یہ سلسلہ سیدو بابا جیؒ کے ساتھ ہی نہ صرف جاری رہا بلکہ آپ کی سیرت و کردار پر ان کا گہرا اثر بھی پڑا۔ آپ نے اپنی زندگی کو علم و عمل کی روشنی سے منور کیا اور اسلامی تعلیمات کو اپنے عمل سے زندہ رکھا۔شیخ عبد الغفور بابا جیؒ کی دعا اور میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی تکمیلشیخ عبد الغفور بابا جیؒ نے حضرت میر احمد شاہ رضوانیؒ کو صرف علمی نہیں بلکہ روحانی لحاظ سے بھی بھرپور نصیحت کی تھی۔ آپؒ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس نوجوان کو بڑا عالم، فاضل اور باعمل بنائے تاکہ وہ اپنے علم سے امت کی رہنمائی کرے۔ اللہ کی رضا اور شیخ عبد الغفور بابا جیؒ کی دعا کے نتیجے میں، حضرت میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی قابلیت میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور وہ بہت جلد ایک ممتاز عالم کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ابتدائی مراحل میں علم کا اشتعال:تقریباً پندرہ یا سولہ سال کی عمر میں، شیخ عبد الغفور بابا جیؒ نے حضرت رضوانیؒ کو شیخ عبداللہ فتن کی بددعا کے سلسلے میں ایک اہم فریضہ سونپتے ہوئے، روم کے بادشاہ کے حکم کا جواب دینے کے لیے منتخب کیا۔ اس موقع پر، شیخ بابا جیؒ کی مسجد کے صحن میں ایک بہت بڑی جماعت موجود تھی، جس میں سینکڑوں لوگ نصیحت لینے کے لیے آئے تھے۔ اس عظیم اجتماع میں، حضرت رضوانیؒ نے اپنی فصیح و بلیغ تقریر کے ذریعے اپنی علمی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔علم کا وسیع دائرہ اور سفر:اس وقت کی تقریر میں آپؒ نے قاضی محمد غلامؒ (جو اس وقت سوات کے قاضی تھے) اور دیگر معروف علماء و شیوخ کی موجودگی میں، اپنے علم کا بھرپور اظہار کیا، جس پر قاضی محمد غلامؒ اور دوسرے علماء نے آپؒ کی تقریر کو بہت سراہا۔ حضرت میر احمد شاہ رضوانیؒ کا وسیع علم اس بات کا عکاس تھا کہ آپؒ نے بچپن ہی سے علم کی تلاش میں سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔سفر کی حقیقت:حضرت رضوانیؒ نے گیارہ سال کی عمر میں ہی علم کی جستجو میں اپنے قدموں کو دور دراز علاقوں تک پھیلایا۔ آپؒ نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا اور یہاں تک کہ یورپی پولیٹیکل آفیسرز کے ساتھ بھی ملاقات کی اور ان کی صحبت میں علمی استفادہ حاصل کیا۔ اس طرح آپؒ نے پچیس سال کا عرصہ سفر میں گزارا، جس دوران آپؒ نے مختلف ممالک میں علم کے موتی جمع کیے اور اپنے علمی افق کو وسیع کیا۔حضرت سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کا علم اور اس کے اثراتحضرت میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی زندگی ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح ایک فرد نہ صرف اپنے وقت کے علماء سے علم حاصل کرتا ہے بلکہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ خود اس علم کا مرکز بن کر دوسروں کو اپنی تعلیمات سے سیراب کرتا ہے۔تیز فہمی اور علم کا حصول:وقت نے یہ ثابت کیا کہ حضرت رضوانیؒ کسی بھی استاد سے علم حاصل کرنے میں بے حد تیز تھے۔ آپ نے افغانستان، ہندوستان، پنجاب اور دیگر علاقوں میں سفر کے دوران کم از کم تین درجن سے زیادہ نامور اساتذہ سے مختلف علوم حاصل کیے۔ آپؒ کا علم نہ صرف روایتی علوم تک محدود تھا بلکہ آپ نے عرفان، ہدایت، ملہ اور ملا شاہ نواز لغمانی جیسے شعبوں میں بھی گہرائی سے تعلیم حاصل کی۔استادوں کے ساتھ علمی ہم عصر:حضرت رضوانیؒ کا علم اتنا وسیع تھا کہ وہ عمر رسیدہ لوگوں کے کلاس فیلو بن گئے، جو خود بھی اپنے وقت کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے۔ آپؒ کا یہ مقام اس بات کا غماز تھا کہ آپ نے انتہائی کم عمری میں علم کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کی تھی۔علم کا دائرہ وسیع کرنے کا سفر:آپؒ کا سفر نہ صرف جغرافیائی تھا بلکہ علمی سفر بھی تھا جس میں آپ نے اپنے اساتذہ سے حاصل کردہ علم کو اپنا ذخیرہ بنایا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب حضرت رضوانیؒ دوسروں کے علمی ذخیروں سے اپنی پیاس بجھاتے تھے، لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا جب آپؒ خود ایک علمی مرجع بن گئے۔ آپؒ کی یہ منزل اس بات کی گواہ ہے کہ آپ نے اپنے علم کی قدر کی اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔اعلیٰ مقام پر علمی نمودار:حضرت رضوانیؒ کا علم اپنے عروج کو پہنچا اور آپؒ نے اس میں اتنی مہارت حاصل کی کہ نامور علماء بھی اپنی علمی پیاس کو آپؒ سے بجھانے کے لئے آتے تھے۔ آپؒ نے خود کو اعلیٰ مقام پر رکھا اور اپنے علم کو چیلنج کرنے یا ثابت کرنے کے لئے اس میں جدیدیت اور جدت کا بھی تڑکا لگایا۔ حضرت میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی سیرت یہ بتاتی ہے کہ کس طرح ایک شخص نے علم کی حقیقت کو سمجھا، اسے جذب کیا، اور پھر اس علم کو خود سے آگے بڑھا کر ایک بڑا عالم بننے کا سفر طے کیا۔ آپؒ کا علمی مقام اور اثر آج بھی اہل علم کے لئے ایک مثالی نمونہ ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام اورینٹل ٹائٹل کے امتحانات آپؒ نے درج ذیل ترتیب سے امتیازی کامیابی کے ساتھ پاس کیے۔"آپؒ نے 1875ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تحت مولوی (عربی) کا امتحان دیا، جس میں آپؒ نے اول پوزیشن حاصل کر کے اپنے علمی سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 1876ء میں مولوی عالم (عربی) کے امتحان میں بھی آپؒ نے امتیازی کامیابی حاصل کی اور ایک بار پھر اوّل پوزیشن اپنے نام کی۔ بعد ازاں، 1878ء میں آپؒ نے منشی (فارسی) اور عالم منشی (فارسی) کے امتحانات دیے، جن میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں میں اول پوزیشن حاصل کی۔ آخرکار، 1879ء میں آپؒ نے مولوی فاضل (عربی) کے امتحان میں شرکت کی اور صوبے بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے اپنی علمی عظمت اور غیر معمولی استعداد کا لوہا منوایا۔"تعلیم و تدریس میں خدماتِ جلیلہآپؒ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ایک ماہر تعلیم کے طور پر کیا اور اپنی علمی قابلیت کے اعتراف میں معروف نارمل کالج امرتسر (جو "مشن کالج" کے نام سے مشہور تھا) میں براہ راست عربی و فارسی کے استاد/پروفیسر کی حیثیت سے مقرر کیے گئے۔ علمی وقار اور لسانی مہارت کی بنا پر جلد ہی آپؒ کو سرکاری سطح پر اہم خدمات سونپی گئیں۔1882ء میں آپؒ نے ایل وائٹ بادشاہ کے ساتھ بطور منشی اپنی سرکاری ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ان کے ساتھ مختلف محکموں میں خدمات سرانجام دیں، حتیٰ کہ ایل وائٹ بادشاہ بعد ازاں پشاور اور راولپنڈی کے کمشنر کے عہدوں تک پہنچے۔11 نومبر 1888ء کو آپؒ کو راولپنڈی میں واقع اساتذہ کے اسکول میں فارسی کے ہیڈ ٹیچر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اس دوران آپؒ نے راولپنڈی اور لاہور کے نارمل اسکولوں میں بھی بطور فرسٹ اورینٹڈ ٹیچر نمایاں تدریسی خدمات انجام دیں۔آپؒ کی قابلیت اور تدریسی مہارت کو دیکھتے ہوئے 1896ء میں آپؒ کو سنٹرل ماڈل اسکول لاہور میں عربی و فارسی کے پہلے مشرقی استاد کے طور پر مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں 1903ء میں آپؒ کو سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں عربی کے ہیڈ ٹیچر/پروفیسر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔اپنی غیر معمولی خدمات کے تسلسل میں، غالباً 1919ء میں آپؒ کا تبادلہ ٹریننگ کالج لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کر دیا گیا، جہاں آپؒ نے 30 جون 1920ء کو اپنی ریٹائرمنٹ تک خدمات انجام دیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپؒ واپس اپنے آبائی گاؤں اکبر پورہ تشریف لے گئے، مگر تعلیم و علم سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اکثر و بیشتر پنجاب کے مختلف شہروں میں منعقدہ تعلیمی کانفرنسوں، سیمیناروں اور علمی اجتماعات میں شریک ہوتے رہے، اور علمی دنیا آپؒ کے وجود سے مسلسل فیضیاب ہوتی رہی۔آپؒ کی طویل خدمات اور انعاماتآپؒ کی طویل اور بابرکت تعلیمی و تدریسی خدمات کے دوران، آپؒ نے نہ صرف بے شمار تعریفی اسناد اور انعامات حاصل کیے، بلکہ آپؒ کی تعلیم و تربیت سے متاثر ہو کر مختلف یورپی شخصیات نے آپؒ کو کئی اہم انعامات سے نوازا۔ آپؒ کے یورپی شاگردوں کی جانب سے پیش کردہ پستول، رائفل، شیلڈ اور دیگر انعامات اس بات کا غماز ہیں کہ آپؒ کی مہارت اور علمی وقار کا اعتراف کیا گیا۔خاص طور پر، جب آپؒ نے ایک خاص مہارت کا امتحان پاس کیا، تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پشاور، مسٹر ایل وائٹ کنگ نے آپؒ کے لیے ایک پستول بطور انعام پیش کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر، آپؒ کے معزز ٹیوٹر میر احمد شاہ رضوانیؒ نے آپؒ کی فنی مہارت کو دیکھتے ہوئے کہا، "میں نے آپ کے لیے دس کمروں والا ایک خوبصورت ریوالور تحفے کے طور پر خریدا ہے۔" یہ انعامات اس بات کا غماز تھے کہ آپؒ کی شخصیت نہ صرف مقامی بلکہ یورپی سطح پر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔تاہم، آپؒ کی ان انعامات کے باوجود کبھی بھی انگریز حکام یا ان کے اثرات کے سامنے آپؒ نے جھکاؤ اختیار نہیں کیا۔ آپؒ کی زندگی کا مقصد ہمیشہ سچائی اور حق کی جانب رہنا تھا۔ قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی زندگی کا مشن ہمیشہ اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلنا اور ان کی تعلیمات کو اپنانا رہا۔ آپؒ نے اپنے اصولوں اور ایمان کو کبھی بھی کسی لالچ یا سیاسی دباؤ کے تحت نہیں چھوڑا، بلکہ آپؒ نے ہمیشہ حق، سچائی اور علم کی راہ پر چل کر اپنا کردار ادا کیا۔شمس العلماء اکبر پورہ، ضلع پشاور کے کتابچے شہادتوں میں، علامہ میر احمد شاہ رضوانیؒ کو نہ صرف مقامی بلکہ یورپی شخصیات کی جانب سے 54 تعریفیں اور انعامات دیے گئے، جو آپؒ کی علمی اور اخلاقی عظمت کا زبردست عکاس ہیں۔آپؒ نے اس تمام دورانِ زندگی میں اپنی دینی و اخلاقی قدروں کو برقرار ، جس سے یہ ثابت ہوا کہ آپؒ کا مشن صرف تعلیم نہیں بلکہ روحانی صداقت اور اصولوں کی پامالی کے خلاف جدوجہد بھی تھا۔تعلیمی خدمات اور محکمہ تعلیم میں آپؒ کی اہمیتمحکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کی نظر میں سیّد میر احمد شاہ رضوانیؒ نہ صرف ایک عظیم ماہر تعلیم تھے، بلکہ وہ واحد معتبر مشرقی استاد تھے جو اس شعبے کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے تھے۔ آپؒ کی علمی مہارت اور تدریسی صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف مقامی سطح پر کیا گیا، بلکہ آپؒ نے اس وقت کی پنجاب یونیورسٹی میں عربی، فارسی، اردو اور پشتو کے ہیڈ ایگزامینر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیں، جو آپؒ کی تدریسی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آپؒ نہ صرف پنجاب یونیورسٹی کے فیلو تھے، بلکہ اورینٹل کورس کے مرتب ہونے کی حیثیت سے آپؒ نے اس کورس کی تشکیل اور ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپؒ کا علمی اور تدریسی اثر اس قدر وسیع تھا کہ آپؒ نے پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے ایک فعال اور پرجوش رکن کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں، جہاں آپؒ نے تعلیمی نصاب کی تیاری اور بہتری میں نمایاں کام کیا۔آپؒ کی یہ خدمات نہ صرف تعلیمی میدان میں آپؒ کی عظمت کو ثابت کرتی ہیں، بلکہ آپؒ کی خدمتِ علم، اخلاقی معیار اور تعلیمی فلاح کی جستجو کا عکاس بھی ہیں۔1. سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ سے متاثر ہونے والی اہم شخصیاتاخونزادہ عبدالغفورؒ، جنہیں سوات باباجیؒ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک بلند پایہ روحانی شخصیت اور بزرگ اولیاء اللہ تھے۔ آپؒ کا تعلق سوات کے ایک قدیم اور معروف روحانی خاندان سے تھا، اور آپؒ نے اپنی زندگی کو دین، روحانیت اور تعلیم کی خدمت میں گزارا۔۔حاجی صاحب ترنگزئی باباؒ کی شخصیت ایک ایسی روحانی عظمت کی حامل تھی جس کا ذکر ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ آپؒ ایک ولی اللہ، باعمل بزرگ اور ان لوگوں میں شامل تھے جو اللہ کی رضا کے لیے اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ آپؒ کی روحانیت اور علم کا دائرہ بہت وسیع تھا اور آپؒ کے اثرات نہ صرف مقامی بلکہ دور دراز علاقوں تک پھیل چکے تھے۔جب انگریز حکومت نے حاجی صاحب ترنگزئی باباؒ پر سختیوں کا آغاز کیا، آپؒ نے اپنی زندگی کو اس حالت میں محفوظ رکھنے کے لیے سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی پناہ میں پناہ لی۔ یہ پناہ لینے کا عمل نہ صرف جسمانی تحفظ کی علامت تھا بلکہ یہ روحانی تعلق اور بے مثال عزت و محبت کی نشاندہی بھی کرتا تھا۔ترنگزئی باباؒ کا سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے ساتھ پناہ لینا ایک روحانی تعلق کی مظہر تھا، جس میں آپؒ نے نہ صرف اپنی جسمانی سلامتی کی حفاظت کی، بلکہ آپؒ نے روحانیت، اخلاق اور علم کے سمندر میں اپنے مرشد اور استاد کی رہنمائی حاصل کی۔ یہ پناہ نہ صرف دنیاوی مشکلات سے نجات کا ذریعہ بنی بلکہ ایک عالی شان روحانی تعلق کی صورت میں پروان چڑھی، جس میں دونوں شخصیات کا اتحاد ایک بے مثال مثال بن کر رہ گیا۔مولا نصیر احمد قصہ خوانی ایک معروف اور قابلِ احترام شخصیت تھے جو تعلیم و تدریس کے میدان میں اپنی خدمات کے لیے جانی جاتے ہیں۔ ان کا تعلق پشاور کے علاقے سے تھا اور وہ قصہ خوانی بازار کے رہائشی تھے، جو پشاور کا ایک تاریخی اور ثقافتی مرکز ہے۔ ان کا شمار نہ صرف ایک ماہر استاد بلکہ ایک روحانی شخصیت کے طور پر بھی ہوتا تھا، جنہوں نے اپنی تعلیمات اور اخلاقی رہنمائی سے بے شمار طلبہ کو متاثر کیا۔قاری عبد المستقیم الکوزی اکبرپوریؒ، قاری عبدالمستان کے صاحبزادے اور حاجی صاحب ترنگزئی باباؒ کے شاگرد تھے۔ آپؒ کا تعلق قاری کنڈل الکوزی کے پوتے سے تھا، جو ایک معروف اور جلیل القدر قاری تھے۔ آپؒ کی زندگی کا مقصد نہ صرف علم دین کی ترویج تھا بلکہ آپؒ نے اپنے بزرگوں کی روحانیت اور تعلیمات کو اپنانا اور اس کا پرچار کرنا بھی اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ آپؒ نے اپنے خاندان کی روحانی وراثت کو آگے بڑھایا اور علم و تصوف میں بے مثال خدمات انجام دیں۔علامہ محمد اقبال ؒ ، جی ہاں، یہ بات تاریخی طور پر نہایت اہم اور فخر کا باعث ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ جیسی عالمی سطح کی علمی و فکری شخصیت بھی شمس العلماء قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کے مداحوں میں شامل تھیں۔علامہ اقبالؒ خود بھی مشرقی علوم، بالخصوص فارسی، عربی اور اسلامی فلسفے کے گہرے ماہر تھے۔ ان کا ذوقِ علم اور شعری بلندیاں ایسے اصحابِ علم کے لیے ہمیشہ کشش کا باعث رہیں جنہوں نے اپنی زندگی مشرقی علوم کی ترویج و اشاعت میں صرف کی ہو۔علامہ اقبالؒ کی طرف سے میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی خدمات، تدریسی مقام اور مشرقی زبانوں میں بالخصوص پشتو کی نصابی شمولیت جیسی جدوجہد کو قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جانا، خود اس بات کا ثبوت ہے کہ رضوانیؒ صاحب نہ صرف اپنے وقت کے اہلِ قلم اور دانشوروں کے رہنما تھے بلکہ وہ اہلِ فکر و فن کی نظر میں ایک درویش صفت معلم اور صاحبِ عرفان شخصیت تھے۔سیّد عظیم شاہ کیال بخاری سابق ڈائریکٹر پختو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی، پختو ادب کے عظیم محقق اور ادیب تھے جنہوں نے پختو زبان کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔صاحبزادہ عبدالقیوم خان اسلامیہ کالج پشاور کے بانی اور پہلے پرنسپل تھے۔ آپؒ نے اس تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جس نے پختونخوا میں جدید تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے اپنے تعلیمی و سماجی خدمات سے علاقے میں علم کی روشنی پھیلائی اور تعلیم کے میدان میں ایک نئی مثال قائم کی۔شمس العلماء خان بہادر سید مولوی ضیاء الدین خان، چیئرمین دہلی ایل ایل ڈی اور آنرڈ ڈگری پی ایچ ڈی سکالر تھے۔ آپؒ ایک بلند پایہ عالم، محقق اور دینی شخصیت تھے جنہوں نے اسلامی تعلیمات اور تحقیق کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ آپؒ کی علمی و تحقیقی کاوشوں نے بہت سے افراد کو روشنی فراہم کی اور آپؒ کی خدمات کو علمی حلقوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے۔قاضی ٹیلا محمد خان ایک معروف عالم فاضل اور مذہبی شخصیت تھے۔ آپؒ کی علم و فضل میں بہت شہرت تھی اور آپ نے اپنی زندگی کو دینی علوم کی ترویج میں گزارا۔ آپؒ کے بیٹے قاضی اسلم نے بھی سرکاری خدمات میں اہم کردار ادا کیا اور ڈپٹی کمشنر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ قاضی ٹیلا محمد خان کی علمی وراثت اور دینی خدمات آج بھی یاد رکھی جاتی ہیں۔سید علامہ عبدالرؤف بغدادیؒ ایک عظیم دینی و علمی شخصیت تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کو اسلام کے علم اور ترویج میں گزارا۔ آپؒ کا تعلق بغداد سے تھا اور آپؒ کا علمی سفر بہت وسیع اور متنوع تھا۔ علامہ عبدالرؤف بغدادیؒ نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ تصوف کے میدان میں بھی گہرے علم و بصیرت کے حامل تھے۔خان بہادر محمد برکت علی خان ایک ممتاز شخصیت تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو تعلیم اور سماجی خدمات میں وقف کیا۔ آپؒ جنرل سیکرٹری انجمن اسلامیہ پنجاب کے طور پر فعال رہے اور پنجاب یونیورسٹی میں فیلو کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دیں۔ آپؒ کی علمی اور سماجی خدمات نے علاقے میں تعلیم کے فروغ اور مسلمانوں کے حقوق کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ آپؒ کی کاوشوں اور تنظیمی صلاحیتوں کے باعث انجمن اسلامیہ پنجاب ایک اہم ادارہ بن گیا۔میاں سعد اللہ خان نسیم، ڈاکٹر میاں سہیل انشاء کے والد، رضوانیؒ کے بھتیجے اور ایک معروف پختو شاعر و ریسرچ اسکالر تھے۔ آپؒ کی علمی و ادبی خدمات پختو زبان و ادب کے فروغ کے لیے بے حد اہم تھیں۔ میاں سعد اللہ خان نسیم نے پختو شاعری میں اپنی منفرد شناخت قائم کی اور تحقیق کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا۔ آپؒ کا ادب اور شاعری پختو ثقافت اور معاشرت کے عکاس تھے، اور آپؒ نے اپنی زندگی کے بیشتر حصے کو پختو زبان کی ترویج میں گزارا۔جن اخبارات/جرائد نے میر احمد شاہ رضوانیؒ کی شاعری اور مضامین کو تحسین کے طور پر شائع کیاپیسہ خبر، نومبر 1899: اس جریدے میں آپ کی ایک فارسی نظم شائع ہوئی، جو آپ کی شاعری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔چودوین سدی، مئی 1901: اس جریدے میں بھی آپ کی ایک فارسی نظم شائع ہوئی، جس میں آپ کے ادبی اسلوب کی گہرائی اور فکر کا اظہار کیا گیا۔رفیقِ ہند، 17 مارچ 1903ء: اس شمارے میں آپ کی ایک فارسی نظم شائع کی گئی، جو انجمن لغمانیہ کے سالانہ اجلاس میں بہت پڑھی گئی اور سامعین پر گہرا اثر چھوڑا۔انتخابِ لاجواب، 4 جنوری 1905: اس جریدے کا مشاعرہ نمبر تھا، جس میں آپ کا سوانحی خاکہ شائع کیا گیا، جس میں آپ کی زندگی اور ادب سے متعلق اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔رفیق العلم، مارچ 1917: اس جریدے میں آپ کا اردو مضمون 1-جکار بستان شائع ہوا، جس میں آپ کے ادبی نظریات اور فکری اصولوں کا بیان کیا گیا۔یہ سب جریدے اور اخبارات آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی شاعری اور مضامین کو اجاگر کرتے ہیں۔یہ سیّد قاضی و علامہ میر احمد شاہ رضوانیؒ کی بے مثال علمی کامیابیوں کی جھلک ہے، جو محض ذاتی شہرت یا ناموری کے لیے نہیں تھیں، بلکہ اعلیٰ مقاصد کے لیے وقف تھیں۔ آپؒ خود غرض نہیں تھے، بلکہ اپنے علم، اثر اور مواقع کو ہمیشہ قوم و ملت کی بھلائی کے لیے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ نے اپنی زندگی میں مختلف زبانوں میں 170 سے زائد کتب تصنیف کیں، جن کی تفصیل الگ سے کی جائے گی، تاہم ان میں سب سے اہم اور یادگار کارنامہ پختو زبان کو تعلیمی اور ادبی مقام دلوانا تھا۔اس دور میں پختو زبان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا تھا، اور اسے اعلیٰ تعلیم کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔ مگر علامہ رضوانیؒ نے اس تعصب کو للکارا۔ آپؒ نے نہ صرف پنجاب یونیورسٹی کے متعلقہ حکام کو علمی دلائل کے ذریعے قائل کیا، بلکہ اپنے یورپی شاگردوں—جو اعلیٰ سول و فوجی عہدوں پر فائز تھے—سے بھی رابطے کیے اور ان کی حمایت حاصل کی۔ ان کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں یونیورسٹی کے مشرقی ادب کے کورس میں پختو کو باقاعدہ شامل کیا گیا، جو اس وقت ایک انقلابی قدم تھا۔یہی نہیں، علامہ رضوانیؒ نے خود پختو زبان کے نصاب کی تیاری کی ذمہ داری اٹھائی۔ اُنہوں نے زمینداری کورسز میں بھی پختو کو شامل کروایا اور اس کے لیے عملی اور معیاری کورس مواد ترتیب دیا۔ یہ خدمات آج بھی پختون قوم کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ جب تک زمین پر پختون، پختو اور پختونولی باقی ہے، علامہ رضوانیؒ کا یہ تاریخی کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ نہ صرف مشرقی زبانوں کے ماہر استاد تھے بلکہ اُن کی علمیت، اخلاق اور شخصیت کا ایسا سحر تھا کہ کئی ممتاز یورپی افسران—چاہے وہ سول کے شعبے سے تعلق رکھتے ہوں یا فوج کے—اُنہیں اپنا استاد بنانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ آپؒ کو اس قدر علمی و تدریسی وقار حاصل تھا کہ برطانوی لارڈز کے بیٹوں تک کو تعلیم دی، اور اُن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔اپنے یورپی شاگردوں کے ساتھ مختلف اسفار کے دوران آپؒ نے نہ صرف مختلف تہذیبوں کا مشاہدہ کیا بلکہ طب یونانی کی نایاب تراکیب اور نسخے بھی حاصل کیے، جنہیں بعد ازاں مختلف پیچیدہ اور لاعلاج سمجھی جانے والی بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم اور تجربہ کار طبی ماہرین نے بھی آپؒ کو اول درجے کا ماہرِ طب تسلیم کیا۔قاضی صاحبؒ کی طبی مہارت کا ایک روشن ثبوت لاہور کے سپرنٹنڈنٹ چیف کاسٹس پنجاب ایف جیکسن کا بیان ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں:"مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ قاضی میر احمد شاہ رضوانی نے میرے داہنے حصے کے درد کا علاج کیا جس سے میں کافی عرصے سے مبتلا تھا، جس کے لیے میں نے بغیر کسی دوا کے کوئی دوا کھا لی تھی۔ صحت مکمل طور پر بحال ہوئی، جس کے لیے میں اس شریف آدمی کا بہت مشکور ہوں۔"یقیناً، قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی خدمات، تدریسی وقار اور ادبی اثرات کا دائرہ اتنا وسیع اور ہمہ جہت تھا کہ ان کی کامیابیوں کا سفر کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ علمی دنیا میں ان کا مقام دن بہ دن بلند ہوتا گیا، اور وقت کے مقتدر حلقے بھی ان کی گراں قدر خدمات کے معترف ہوتے گئے۔ وہ ایک عرصے سے ایک بڑے اعزاز کے امیدوار تھے۔ ایل وائٹ کنگ (کمشنر)، لالہ ساگر چند (مرحوم انسپکٹر آف اسکولز راولپنڈی سرکل) اور دیگر ممتاز شخصیات نے بارہا حکومت کو سفارشات بھیجیں کہ قاضی صاحب کو ان کے شایانِ شان لقب سے نوازا جائے۔بالآخر، 9 نومبر 1901 کو برطانوی ہندوستان کے اُس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ کرزن نے آپؒ کو ذاتی امتیاز کے طور پر "شمس العلماء" کا معزز خطاب عطا کیا یہ اس زمانے میں علمی و ادبی دنیا کا سب سے بڑا سرکاری اعزاز سمجھا جاتا تھا۔یہ نہایت اہم بات ہے کہ قاضی رضوانیؒ وہ پہلی شخصیت تھے جنہیں موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں اس اعزاز کے لائق سمجھا گیا، اور یوں آپؒ نے اس دروازے کو آئندہ نسلوں کے لیے کھول دیا۔ یہ خطاب اُنہیں صرف 41 سال کی عمر میں عطا ہوا، جب وہ تعلیم، ادب اور طب جیسے شعبوں میں صرف تیرہ سال سے خدمات انجام دے رہے تھے، جو بذاتِ خود ایک تاریخی مثال ہے۔اس موقع پر 16 نومبر 1901 کو معروف اردو اخبار "رفیقِ ہند" نے آپؒ کی عزت افزائی کو ان الفاظ میں سراہا:"حکومت کی طرف سے مولوی قاضی میر احمد شاہ صاحب پشاوری کو 'شمس العلماء' کے خطاب سے نوازا جانا ان کی ادبی اور حکومتی خدمات کے اعتراف میں ایک مناسب اور موزوں انعام ہے۔ یہ پنجابیوں کے لیے خاص خوشی کا موقع ہے اور وہ فخر محسوس کریں کہ اس صوبے کے ایک شخص کو 'شمس العلماء' کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ قاضی صاحب کو یہ اعزاز سب سے پہلے ملا، جس کے بعد ہمیں امید ہے کہ صوبے کے کئی اور اہل افراد بھی اس مرتبے پر پہنچیں گے۔ ہم قاضی صاحب کو اس اعزاز پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔"یہ الفاظ صرف ایک اخبار کی رائے نہیں، بلکہ اُس دور کے شعور اور عزت افزائی کا آئینہ دار ہیں، جو قاضی صاحبؒ کے مقامِ علم و وقار کی سچی گواہی ہے۔یہ اقتباس ایک نہایت اہم اور تاریخی واقعہ کو محفوظ کرتا ہے، جو نہ صرف شمس العلماء سید قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی عظمت کا ثبوت ہے، بلکہ علامہ اقبالؒ جیسے عبقری مفکر کی ان کے ساتھ وابستگی اور فکری ہم آہنگی کا بھی غماز ہے۔علامہ اقبالؒ کی رضوانیؒ سے عقیدت اور ان کا علمی احترام ایک سنجیدہ تاریخی حوالہ رکھتا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر بہت اہم ہے کہ 1901ء میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) جب پنجاب سے الگ ہوا، تب بھی شمس العلماء رضوانیؒ جیسے اہل علم شخص کو اس سرزمین کی نمائندگی کا اعزاز ملا، جس نے پشتو جیسی زبان کو نصاب میں شامل کروا کر اسے قومی تعلیمی وقار بخشا۔رضوانیؒ کے علمی، ادبی اور لسانی کارنامے اتنے عظیم تھے کہ 22 سال تک کوئی اور ان کے برابر نہ آ سکا۔ بعد ازاں علامہ اقبالؒ کے سخت اصرار اور سفارش پر ان کے اپنے استاد مولوی میر حسنؒ کو 1923 میں شمس العلماء کا خطاب دیا گیا، لیکن علامہ اقبالؒ کے دل میں جو محبت رضوانیؒ کے لیے تھی، وہ الگ مقام رکھتی ہے۔یہ بھی نہایت پرمعنی حقیقت ہے کہ رضوانیؒ کو علامہ اقبالؒ “ایک بڑا عالم” سمجھتے تھے، اور انہیں ذاتی محبت سے “ایک بال” کہا کرتے تھے۔ اقبالؒ کو افغان تاریخ اور نسلیات سے گہرا شغف تھا، اور ان موضوعات پر وہ اکثر میر احمد شاہ رضوانیؒ سے تبادلہ خیال کرتے۔ ان کی گفتگو اور علمی مکالمات کا ایک حوالہ بشیر احمد ڈار کی کتاب "انوارِ اقبال" 1977کے صفحات 284-285 پر موجود ہے، جہاں اقبالؒ کے خط میں رضوانیؒ کا نام خاص احترام کے ساتھ درج ہے۔یہ سب اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ شمس العلماء قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ صرف اپنے دور کے نہیں، بلکہ برصغیر کے علمی منظرنامے کی ایک بے مثال اور منفرد شخصیت تھے، جنہیں اقبال جیسے مفکرین بھی عقیدت اور عظمت سے یاد کرتے تھے۔شمس العلماء میر احمد شاہ رضوانیؒ کے علمی و ادبی کارنامےشمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ ایک ہمہ جہت اور عبقری شخصیت تھے جنہیں نو زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ عربی، فارسی، پشتو، اردو، انگریزی، ہندی، ترکی، سندھی اور پنجابی زبانیں ان کے علم کا میدان تھیں، اور ان میں انہوں نے نہ صرف علمی خدمات سرانجام دیں بلکہ کئی نسلوں کو علمی، ادبی، لسانی اور اخلاقی طور پر روشنی بھی عطا کی۔آپؒ نے اپنی زندگی میں تقریباً 170 کتابیں تصنیف یا ترتیب دیں، جن میں سے 70 عربی، 54 فارسی، 30 پشتو، 10 اردو اور 5 انگریزی زبان میں تھیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انگریزی زبان میں ان کی بعض تحریریں ممکنہ طور پر ان کے یورپی شاگردوں کی اعانت سے تیار ہوئیں۔ معروف محقق ڈاکٹر میاں سہیل انشاء اپنی کتاب Boughs and Bouquets میں لکھتے ہیں:"میں نے شمس العلماء میر احمد شاہ رضوانیؒ کی 60 کتابوں کے نام تو حاصل کر لیے، لیکن ان میں سے بھی صرف 17 کتابیں ہی مجھے دستیاب ہو سکیں"انہوں نے ان 60 کتابوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے:(الف) درسی کتابیں:یہ وہ کتب تھیں جو تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ بنیں اور باقاعدہ تدریس میں استعمال کی گئیں:
نمبر
کتاب کا نام
نمبر
کتاب کا نام
1.
اردو جدید گرامر برائے پرائمری کلاسز (اردو)
2.
اسباق فارسی کتابی سلسلہ علم التعلیم میں (فارسی)
3.
بہارستانِ افغانی (پختو)
4.
شکرستانِ افغانی (پختو)
5.
پختو گرامر المصمہ با وفیہ (اردو-پختو)
6.
عربی قاری برائے فرسٹ مڈل کلاس
7.
عربی قاری برائے سیکنڈ مڈل کلاس
8.
عربی قاری برائے تھرڈ مڈل کلاس
9.
عربی قاری برائے چوتھی مڈل کلاس
10.
ابتدائی عربی گرامر برائے مڈل کلاسز
11.
عربی قاری برائے اعلیٰ شعبہ جات
12.
فارسی قوائد جدید بطریق استھراجی
13.
قوائدِ عربی دار فانِ سرف با طریقِ تعلیمِ جدید
14.
معیار لقوائد برائے داخلہ
15.
اور کچھ دوسری کتابیں جن کی تعداد غیر واضح ہے۔
(ب) عام کتابیں:یہ وہ کتب تھیں جن میں مذہب، تصوف، ادب، لسانیات، تاریخ، اور سوانحی موضوعات شامل تھے:
نمبر
کتاب کا نام
نمبر
کتاب کا نام
16.
آ ثار قدیمہ
17.
اسلام کے بنیادی اصول (اردو)
18.
الطلحیس فلعروز (عربی)
19.
بکورا شبیح فی تاریخ بنوسیہ
20.
پختو متلونا (پختو)
21.
تحفۃ البحری (فارسی)
22.
تاریخ آفریدی
23.
تاریخِ افغانان
23.
تاریخ الانبیاء علیھم السلام
24.
تاریخ کافر ستان
25.
تجوید القرآن
26.
تحقیق السینا
27.
تمرت العرب فی لسانیل بدوول عرب
28.
جزری (پختو شاعری)
29.
دار کیفیات عطاء شودان خطیب شمس العلماء با بندہ قصی میر احمد شاہ رضوانی پشاوری(فارسی)
30.
خلاصت الصیر
31.
دیوان و قصائد رضوانیؒ
32.
ردات النّصرہ
33.
ترجمان فارس
34.
رسالِ ذات و شارفت
35.
رسالہ الصلوۃ العرب
36.
صفر نامہ ہند
37.
شرح بدیحت امراء القیس کندی جہلی
38.
شرح شُلُولیہ آشا اسدی جہلی المعروف با شلشول و الموقلب با سناجات العرب کی شریعت (عربی فارسی)
39.
شرح قصیدہ شہانفرہ الماشا ہوراتہ با لامیات الاعرب
40.
شرح شیخ احمد جزری
41.
شرح غرائب الامصال العرب
42.
شرح مستجمع علامہ طنطرانی
43.
صاحبیاتو (عربی شاعری)
44.
قیصریاتو (فارسی شاعری)
45.
فتویٰ دار مسلہ امن و امان (پختو)
46.
فتویٰ دار مسلہ امن امان (اردو)
47.
فتاویٰ دار مسلہ امن دار دفاع حکومت ہند
48.
فتویٰ دار مسلہ امن بضاد فرقہ واریت (پختو)
49.
فتاویٰ دار مسلہ امن بضاد فرقہ واریت (اردو)
50.
فتاویٰ دار مسلہ طلاق
51.
کتاب تحفۃ الاولیاء (فارسی)
52.
کتاب فارسی روزمرہ ایران
53.
لامہ العرفان فی توضیح القرآن (تفسیر)
54.
مجربات رضوانیؒ
55.
مجربات رضوانی برائے بیماران بذریعہ ڈاک
56.
مناقب و قصائد غورا دار شان معین الدین چشتی اجمیریؒ
57.
منظومات ابو صفا قاضی میر احمد شاہ رضوانی پشاوریؒ
58.
ہجویریہ دار منقبت سید علی ہجویری لاہوری ؒ (فارسی)
59.
دیوانِ اشعارِ عربیہ، فارسیہ و افغانیہ
60.
مخ البغوث فی علم العروس
61.
یادشتِ امورِ ضروریہ و سوانی عمریہ سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانی پشاوریؒ
62.
یادشتِ امورِ متفرقہ
63.
یادگار بستان دار تاریخ قدیم ہند، مغربی و افغانستان
64.
ترجمہ
تاہم یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس فہرست میں بعض کتب ممکنہ طور پر دہرا نام رکھتی ہیں یا مشتبہ ہیں۔ مثلاً:"ترجمان فارس" اور "کتاب فارسی" شاید ایک ہی کتاب کے دو نام ہوں۔"الطلحیس فی عروس" اور "مخ البغوث فی علم العروس" بھی غالباً ایک ہی علمی کام ہیں۔"پختو متلونا" کو ایک الگ کتاب کے طور پر تلاش نہیں کیا جا سکا، بلکہ اس کا مواد "شکرستانِ افغانی" میں شامل ہے۔اسی طرح "لمعۃ العرفان" ایک اور صاحبِ علم میر احمد کی تصنیف معلوم ہوتی ہے نہ کہ رضوانیؒ کی۔ان تمام علمی خدمات کا خلاصہ یہی ہے کہ شمس العلماء رضوانیؒ نے نہ صرف اپنی ذات کو علم و تحقیق کے لیے وقف کیا بلکہ برصغیر میں لسانیات، تاریخ، دینیات اور تدریس کی ایسی بنیاد رکھی جس پر آنے والی نسلیں آج بھی انحصار کرتی ہیں۔ ان کی تصانیف کی یہ فہرست محض ایک جھلک ہے، اصل ورثہ ان کے نظریات، زبانوں کی ترویج، اور وہ تعلیمی تحریک ہے جس نے کئی ذہنوں کو روشن کیا۔(ا) درسی کتب کی وضاحت1. پشتو گرامر:یہ پشتو زبان کا پہلا باقاعدہ گرامر ہے جو اردو زبان میں مرتب کیا گیا۔ اس علمی کاوش کا بنیادی مقصد غیر پشتو بولنے والے افراد، بالخصوص فرنٹیئر کے سول و ملٹری افسران اور یورپی حکام کو پشتو زبان سکھانا تھا تاکہ وہ مقامی آبادی سے بہتر طور پر رابطہ قائم کر سکیں۔ یہ کتاب ابتدا میں 1890 میں شائع ہوئی، بعد ازاں 1898 اور 1908 میں اس کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن منظرِ عام پر آئے۔ اس گرامر کو اس انداز سے مرتب کیا گیا ہے کہ ایک غیر پشتو دان قاری بھی آسانی سے اس زبان کے بنیادی قواعد کو سمجھ سکے2. شرح قصیدہ اسدی جاہلی (عربی اور فارسی میں):قصیدہ اسدی جاہلی، جاہلی دور کے معروف شاعر اشعا اسدی (أعشى أسد) کی شعری تخلیق ہے جو عربی ادب میں فصاحت و بلاغت، تغزل اور بدوی جذبات کی عمدہ مثال سمجھی جاتی ہے۔ اس قصیدے کی عربی زبان میں جامعیت اور فارسی تراجم میں معنوی گہرائی نے اسے مختلف ادبی روایتوں میں زندہ رکھا۔ قصیدے میں عشق، قبیلائی فخر، اور صحرائی زندگی کی جھلک نمایاں ہے، جبکہ لسانی طور پر اس میں جاہلی عربی کی اصل لغت محفوظ ہے۔اشعا اسدی کی نثر جاہلی نثر کے اس اسلوب کی نمائندہ ہے جس میں سادگی کے ساتھ دانائی اور قبائلی دانش چھپی ہوتی ہے۔ اگرچہ ان کی نثری روایت محدود ہے، لیکن ان کے اقوال و امثال میں عربی زبان کی فطری بلاغت، بدوی حکمت، اور معاشرتی بصیرت جھلکتی ہے۔3. 3. شرح قصیدہ شَنفرى جاہلی:شَنفرى جاہلی دور کا ممتاز اور باغی مزاج شاعر تھا جس نے عربی ادب میں انفرادیت، آزادی اور فطرت پسندی کا علم بلند کیا۔ اس کا معروف قصیدہ "لامیۃ العرب" ایک لازوال تخلیق ہے جسے "شنفرى کا اوڈ" بھی کہا جاتا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے قبیلائی نظام سے بغاوت، تنہائی کی عظمت، اور صحرائی زندگی کی سختی کو وقار کے ساتھ پیش کیا ہے۔لامیۃ العرب نہ صرف فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے بلکہ عربی شاعری میں ایک انوکھے فلسفۂ حیات کی نمائندہ نظم بھی ہے، جس میں شاعر خود کو جنگلی جانوروں کا ساتھی اور قبائلی اقدار کا نقاد ظاہر کرتا ہے۔ یہ قصیدہ جاہلی فکر اور فطری انسان کی آزادی کا پراثر بیانیہ ہے۔1. شرح بدَہاتِ اِمراء القیس جاہلی:اِمراء القیس جاہلی عرب کا سب سے ممتاز شاعر تھا، جسے عربی غزل کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے اشعار میں عشق، فطرت، جنگ، اور قبائلی وقار کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔ "بدَہات" سے مراد وہ اشعار ہیں جو فی البدیہہ یعنی بغیر تیاری کے موقع پر کہے گئے ہوں، اور اِمراء القیس کی کئی تخلیقات اسی شان کی حامل ہیں۔پرانے عربی ادب میں، اس کے اشعار نہ صرف لسانی چابک دستی کا نمونہ ہیں بلکہ وہ جاہلی عرب کی جمالیاتی اور جذباتی دنیا کو بے ساختہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان بدَہات میں گہرے جذبات، حسین تشبیہیں، اور حیران کن فطری مناظر کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اِمراء القیس کے یہ فی البدیہہ اشعار اس کی ذہنی جولانی اور ادبی عظمت کا زندہ ثبوت ہیں۔2. شرح قصائد علامہ طنطارانیہ:علامہ طنطارانیہ ایک فرضی یا نیم تاریخی ادبی کردار کے طور پر جانے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ عموماً طنز و مزاح اور بیان بازی کی روایت میں کیا جاتا ہے۔ ان کی طرف منسوب قصائد دراصل عربی و اسلامی ادب میں مبالغہ آمیز فصاحت، لسانی چابک دستی اور علمی مزاح کا نادر نمونہ سمجھے جاتے ہیں۔طنطرانی کلام میں ادبی چالاکی، نکتہ آفرینی، اور بیان بازی (rhetoric) کو مقصد بنایا گیا، جہاں زبان و بیان کا کمال سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں انداز میں جھلکتا ہے۔ ان قصائد میں علمی تعقید، الفاظ کا جادو، اور بظاہر بے ربط مگر ادبی طور پر معنی خیز جملے ملتے ہیں، جو قاری کو فکری اور لسانی مسرت بخشتے ہیں۔یہ کلام ادبِ ظرافت، خطابت اور فنِ بدیع کے طالبعلموں کے لیے نہایت مفید ہے، کیونکہ یہ لفاظی کے کمال اور بیان کی تہ داری کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔3. شرح غرائب المسائل العربیہغرائب المسائل العربیہ ایک ایسی ادبی کاوش ہے جس میں عربی زبان کے نادر، عجیب و غریب اور کم معروف محاورات (Idioms) اور فقرات کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ یہ محاورے عربوں کے روزمرہ کلام، قصص، اور کلاسیکی متون سے ماخوذ ہوتے ہیں، اور ان میں معنوی تہ داری، ثقافتی اشارے، اور لسانی جمالیات نمایاں ہوتی ہیں۔ان محاوروں کی تفسیری شرح کے ذریعے نہ صرف زبان کی فصاحت و بلاغت کو سمجھا جا سکتا ہے، بلکہ عربی معاشرت، تاریخی پس منظر اور فکری انداز کا بھی گہرا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ "غرائب" سے مراد ایسے اسلوب یا جملے ہیں جو بظاہر غیر معمولی یا غیر مانوس ہوں، مگر اپنے سیاق و سباق میں بڑی معنویت رکھتے ہیں۔یہ شرح ان محاورات کے لغوی، معنوی، اور ادبی پہلوؤں کو واضح کرتی ہے، اور انہیں سمجھنے والوں کے لیے عربی زبان کا ذوق اور فہم بڑھاتی ہے۔4. شرح جَزَریشرح جَزری دراصل شیخ احمد بن محمد الجزری (متوفیٰ 833ھ) کی علومِ قراءت اور تجوید پر مبنی علمی کاوشوں کی تشریح ہے، جنہوں نے قرآنِ کریم کے مختلف تلفظات (قراءات) کو ضوابط کے ساتھ بیان کیا۔ ان کی مشہور تصنیف "المنظومہ الجزریہ" تجوید کے اصولوں پر ایک معیاری نظم ہے، جسے دنیا بھر میں قرآن کے طلبہ و قُرّاء سیکھتے اور پڑھاتے ہیں۔پختو زبان میں "شرح جزری" اس علمی ورثے کی وہ تفسیری صورت ہے جس میں پختون خوا کے علما نے قرآنی الفاظ کے تلفظ، مخارج، صفات، اور قراءت کی باریکیوں کو پختو زبان میں سمجھایا، تاکہ غیر عرب قارئین قرآن کو درست تلاوت کے اصول معلوم ہو سکیں۔یہ شرح نہ صرف تجوید کی تعلیم دیتی ہے، بلکہ قرآن کی تلاوت میں صوتی حسن اور تلفظ کی درستی کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔5. اتلخیص فی العروضاتلخیص فی العروض ایک کتاب ہے جو عربی نثر میں عروض (وزن) کے اصولوں پر بحث کرتی ہے۔ یہ کتاب حروف تہجی کی تبدیلی اور عروضی تغیرات کو سمجھاتی ہے، جیسے وزن میں کمی یا اضافے سے اشعار کی ساخت میں تبدیلی۔ کتاب میں شعر کے مختلف اصناف، عروضی ہجے اور وزن کی درستگی کے اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے تاکہ عربی نثر میں جمالیاتی توازن برقرار رہے۔ یہ تصنیف عربی شعر و نثر کے اصولوں کو سلیس انداز میں بیان کرتی ہے۔6. مخ البغوز فی علم العروضمخ البغوز فی علم العروض ایک علمی تصنیف ہے جو عروض (وزن) اور عربی مصوری کے موضوعات پر بحث کرتی ہے۔ یہ کتاب لائبریری آف کانگریس (Washington, D.C.) میں W892 نمبر کے تحت محفوظ کی گئی ہے اور اس میں عربی شعر و نثر کے عروضی اصولوں کے ساتھ ساتھ عربی مصوری کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔کتاب میں عروض کے قواعد، اشعار کے وزن، اور ان کے جمالیاتی اثرات پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے، جبکہ عربی مصوری کی بحث میں شاعری کی تخلیقی تصورات اور فنِ تصویر کو ملایا گیا ہے۔یہ تصنیف عربی زبان اور ادب کے طلباء اور محققین کے لیے اہم ہے، کیونکہ اس میں عروض کے اصولوں کے ساتھ عربی فنون کے انوکھے امتزاج کو سمجھایا گیا ہے۔7. تمرۃ الغرائب فی لسان البدوی والعربتمرۃ الغرائب فی لسان البدوی والعرب ایک اہم کتاب ہے جو بدوی عربی بول چال (لسان البدوی) پر بحث کرتی ہے۔ اس کتاب میں عربی زبان کے بدوی لہجوں، محاورات اور روزمرہ کی بول چال کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔کتاب کا مقصد عربی کے روایتی بدوی لهجے کی خصوصیات، زبان کی ساخت اور اس کے لغوی و معنوی پہلو کو بیان کرنا ہے۔ اس میں عربی کے دیہی اور بدوی طبقے کی بول چال کی پیچیدگیوں کو اجاگر کیا گیا ہے اور محاورات، اظہار کے طریقے، اور زبان کی غیر رسمی خصوصیات کو سمجھایا گیا ہے۔یہ کتاب عربی ادب اور لسانیات کے محققین کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ بدوی زبان اور اس کے ثقافتی اثرات پر روشنی ڈالتی ہے۔8. ترجمان فارس:ترجمان فارس ایک کتاب ہے جو ایران (فارس) کی بول چال اور روزمرہ کی زبان پر مشتمل ہے۔ اس میں فارس کی زبان، محاورات، اور روزمرہ کی گفتگو کی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔ کتاب میں ایرانی ثقافت اور بول چال کے مختلف پہلوؤں کو زبان کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے، تاکہ فارس کی لسانیاتی ساخت اور ثقافتی تاثرات کو سمجھا جا سکے۔9. رسالہ صلاۃ العرب:رسالہ صلاۃ العرب ایک تصنیف ہے جو عربی زبان میں استعارے (metaphors) کے صحیح استعمال پر بحث کرتی ہے۔ اس کتاب میں استعاروں کے مختلف اقسام اور مفہوم کو سمجھایا گیا ہے، ساتھ ہی عربی ادب میں ان کے اہمیت اور غلط استعمال کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ تصنیف عربی زبان کے طلباء اور ادبی محققین کے لیے مفید ہے، کیونکہ اس میں استعارے کے استعمال کے بلاغی اصول اور ان کے لکیرے معانی کی وضاحت کی گئی ہے۔10. تحفۃ البحری در علم میراث۔تحفۃ البحری در علم میراث ایک تصنیف ہے جو خاص طور پر وارث جہاز (یعنی جہاز کے وارثوں) کے حوالے سے محمدی قانون (اسلامی میراث کے قوانین) پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں جہاز کے مالکان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کے حقوق اور میراث کے مسائل پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔کتاب میں اسلامی قانون کے تحت جہاز کی ملکیت اور اس سے وابستہ وراثتی اصولوں کا تجزیہ کیا گیا ہے، تاکہ میراث کے معاملے میں انصاف اور درست طریقہ کار اپنایا جا سکے۔ یہ تصنیف خاص طور پر تجارتی جہازوں یا سمندری مالکان کے ورثاء کے لیے اہم ہے۔11. رسالہ زات او شرازت۔رسالہ زات او شرازت ایک کتابچہ ہے جو ہندوستانی نسلوں کی تاریخ اور ان کے ثقافتی پس منظر پر بحث کرتا ہے۔ اس میں مختلف نسلی گروہوں، قبیلوں اور قوموں کی جڑیں، ان کے تاریخی ارتقا، اور معاشرتی ڈھانچے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب میں ہندوستانی تاریخ کے مختلف ادوار میں رہنے والے لوگوں کی نسلی شناخت، نسلوں کے مابین روابط اور علاقائی اثرات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ یہ تصنیف ہندوستانی معاشرت اور نسلی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔12. دیوانِ اشعارِ فارسیہ و عربیہ و افغانیہ:دیوانِ اشعارِ فارسیہ و عربیہ و افغانیہ علامہ رضوانی کا ایک شعری مجموعہ ہے جس میں عربی، فارسی اور پختو زبانوں میں اشعار شامل ہیں۔ یہ دیوان ان تین زبانوں میں ادبی و شعری اظہار کی خوبصورتی اور انفرادی تخلیقی انداز کو ظاہر کرتا ہے۔ علامہ رضوانی نے مختلف ثقافتی اور لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے اشعار کو اپنے دیوان میں شامل کیا، جس میں ان کے عربی، فارسی اور پختو میں مہارت اور ان کی زبانوں کے ادبی ورثے کا بھی عکس ملتا ہے۔یہ مجموعہ مختلف شعری روایتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے جو مفہوم، جمالیاتی کیفیت اور لغوی اثرات کے لحاظ سے اہم ہے۔13. ردّۃ النسوارہ:ردّۃ النسوارہ ایک طنزیہ یا تنقیدی رسالہ معلوم ہوتا ہے جو غالباً نسوار کے استعمال سے جڑی بداعمالیوں، سماجی رویوں یا غلط فہمیوں کا جواب دیتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ تحریر نسوار کے خلاف ردِ عمل کے طور پر لکھی گئی ہے—جس میں ممکنہ طور پر صحت، تہذیب، یا دینی پہلوؤں سے اس کے استعمال پر اعتراضات اور ان کے جوابات شامل ہیں۔یہ رسالہ اصلاحی نوعیت کا ہو سکتا ہے، جس میں نسوار کے بارے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیوں، افواہوں یا روایتی تصورات کو علمی، طبی یا سماجی انداز میں چیلنج کیا گیا ہے۔14. بہارستانِ افغانی (پختو):بہارستانِ افغانی (پختو) ایک اہم ادبی مجموعہ ہے جو کلاسیکی پختو نثر و شاعری پر مبنی ہے۔ یہ مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے لیے مرتب کیا گیا اور پختو داخلہ امتحان میں شامل رہا۔یہ تصنیف پہلی بار 1898 میں شائع ہوئی، اس کا دوسرا ایڈیشن 1931 میں اور تیسرا ایڈیشن 1956 میں منظرِ عام پر آیا۔ اس کی تعلیمی اہمیت کے باعث یہ 1960 تک میٹرک کے نصاب میں شامل رہا۔کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علامہ رضوانی کے 14 نثری مضامین اور ایک شعری مجموعہ شامل ہے، جو پختو ادب کی لسانی، فکری اور ادبی وسعت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ مجموعہ پختو کلاسیکی ادب کو محفوظ کرنے اور تعلیمی میدان میں رائج کرنے کی ایک کامیاب کوشش تھا۔15. شکرستانِ افغانی (پختو):بہارستانِ افغانی کی طرز پر مرتب کردہ ایک اہم ادبی تصنیف ہے، جس میں پختو نثر و نظم کا نیا انتخاب شامل ہے۔ اس کتاب میں نثر کے سات نمونے اور علامہ رضوانی کی ایک منتخب نظم شامل کی گئی ہے۔یہ کتاب انگریز افسران کے لیے مرتب کی گئی تھی، اسی لیے اس میں شامل مواد کے انگریزی معانی بھی فراہم کیے گئے ہیں، تاکہ غیر پختون قارئین کو زبان اور ادب کی تفہیم میں سہولت ہو۔اس تصنیف میں شامل نثری نمونے اور رضوانی کی تحریر نے انہیں جدید پختو نثر نگاری کے علمبرداروں میں شامل کر دیا۔ شکرستانِ افغانی نہ صرف ادبی لحاظ سے بلکہ لسانی و تعلیمی مقصد کے لیے بھی ایک قیمتی مجموعہ ہے۔16. صاحبیہ:صاحبیہ ایک عربی نعتیہ نظم ہے جو عبدالوہاب المعروف پیر صاحب مانکی شریف کے اعزاز میں کہی گئی ہے۔ یہ نعت عربی زبان میں لکھی گئی ہے اور پیر صاحب کی روحانی عظمت، دینی خدمات اور عشقِ رسول ﷺ کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔یہ نعت پیر صاحب کی صوفیانہ شخصیت اور ان کے پیروکاروں میں روحانی اثرات کو اجاگر کرتی ہے، اور عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے بین الاقوامی اسلامی ادبیات میں بھی ایک مقام حاصل ہے۔17. قیصریہ:قیصریہ ملکہ برطانیہ کی وفات پر کہی گئی ایک فارسی غزل ہے، جو رنج و غم اور تعزیت کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔18. ہجویری: سید علی ہجویری المعروف داتا گنگ بخش ؒ لاہوری کی شان میں شاعری۔ہجویری ایک شعری مجموعہ ہے جو سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی شان میں تحریر کیا گیا ہے۔ یہ مجموعہ ان کی روحانی عظمت، علم و معرفت اور صوفیانہ مرتبے کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔اس میں کینٹیناس (Cantinas) کی خوبصورتی کے ساتھ ان کی سیرت و تعلیمات کو ادبی و فنی انداز میں پیش کیا گیا ہے، جو نعتیہ اور صوفیانہ شاعری کا حسین امتزاج ہے۔19. کتاب تحفۃ الاولیاء:تحفۃ الاولیاء ایک اہم تصنیف ہے جو اکبر پورہ، ضلع نوشہرہ کے معروف بزرگ سید عبدالوہاب المعروف اخون پنجو باباؒ کی سوانح حیات اور روحانی خدمات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں دیگر اولیاء کرام کی زندگیوں پر بھی مختصر مواد شامل ہے۔یہ کتاب دو بار شائع ہوئی: پہلی بار 1903 میں اور دوسری بار 1910 میں۔سید امیر شاہ قادری کے مطابق انہوں نے اس کا اردو ترجمہ بھی لکھا ہےمگر وہ میری نظر میں پروف کی غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔یہ تصنیف سیرت، روحانیت اور علاقائی صوفی تاریخ کا قیمتی ذخیرہ ہے۔20. کتاب فارسی روزمرہ ایران:فارسی روزمرہ ایران ایک عملی کتاب ہے جو ایران میں بولی جانے والی روزمرہ فارسی زبان (عام گفتگو) پر مبنی ہے۔ اس میں محاورے، جملے، اور بول چال کے انداز شامل ہیں جو ایران میں روزانہ استعمال ہوتے ہیں۔کتاب کا مقصد غیر فارسی بولنے والوں، خاص طور پر طلباء، سیاحوں یا محققین کو ایرانی معاشرتی ماحول میں زبان کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں مدد دینا ہے۔ یہ کتاب ایرانی لہجے، تلفظ اور رائج الفاظ سے واقفیت فراہم کرتی ہے، اور فارسی زبان کے عملی استعمال کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔21. باقرہ شبیع فی تاریخ بنوسیہ:باقرہ شبیع فی تاریخ بنوسیہ غالباً ایک تاریخی تصنیف ہے جس میں بنو سیہ یا ممکنہ طور پر بنو عباس خاندان کی تاریخ درج ہے۔کتاب کا عنوان قدیم طرز کا ہے، اور "تاریخ بنوسیہ" کا مطلب غالباً بنو عباس یا کسی اور عباسی یا عرب قبیلے کی نسلی، سیاسی اور علمی تاریخ ہے۔اس میں ان کے حکمرانی کے ادوار، علمی کارنامے، مذہبی اثرات اور سیاسی تحریکوں پر روشنی ڈالی گئی ہوگی۔یہ تصنیف اسلامی تاریخ کے ایک اہم خاندان کی شناخت اور ان کے اثر و رسوخ کو سمجھنے کا ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔22. یادگار بستان (فارسی):یادگار بستان (فارسی) ایک اہم تاریخی تصنیف ہے جو افغانیوں کی تاریخ اور ان کی قبائلی ساخت پر مبنی ہے۔ اسے علامہ میر احمد شاہ رضوانیؒ نے 1914 میں دو جلدوں کو ملا کر مرتب کیا، مگر یہ تصنیف ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔کتاب میں افغانی قبائل کی نسب، روایات، علاقائی تاریخ اور سیاسی و سماجی حیثیت پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، جو اسے ایک قیمتی علمی و تاریخی دستاویز بناتی ہے۔23. سفرنامہ ہندیہ:سفرنامہ ہندیہ ایک اہم سفرنامہ ہے جس میں علامہ رضوانی نے ہندوستان کے مختلف مقامات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ اس میں ان مقامات کا ذکر کیا گیا ہے جہاں انہوں نے یا تو تنہا سفر کیا یا پھر یورپی سیاسی افسروں، سول افسران، اور فوجیوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔یہ سفرنامہ علامہ رضوانی کی مشاہدات، سفر کے تجربات اور ہندوستان کے مختلف خطوں کی ثقافت، معاشرت اور سیاسی ماحول پر ان کے خیالات کا مجموعہ ہو سکتا ہے۔ اس میں یورپی اثرات اور مقامی تہذیبوں کے امتزاج کو بھی بیان کیا گیا ہوگا۔24. مجربات رضوانی:مجربات رضوانی ایک طبی تصنیف ہے جو یونانی ادویات پر مبنی ہے اور ان ادویات کا ذکر کرتی ہے جو پرانے بیماریوں کے علاج میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ اس کتاب میں قدیم یونانی طب کے طریقوں، جڑی بوٹیوں اور نسخوں پر تفصیل سے بات کی گئی ہے، جو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے کارگر ثابت ہوئی ہیں۔یہ تصنیف طب کے علم اور قدیم علاج کے طریقوں کی قدر دانی کرنے والے افراد کے لیے ایک اہم علمی سرمایہ ہے، جس میں یونانی طب کے مفید نسخے اور ان کی فائدہ مند خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔25. تحقیق السینازبانوں پر تحقیقی کام۔تحقیق السینازبانوں پر تحقیقی کام ایک تحقیقی تصنیف ہے جو مشرقی زبانوں پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں تقابلی لسانیات، علم اشتقاق (etymology)، نحو (grammar)، اور شکلیات (morphology) پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔اس میں مختلف مشرقی زبانوں کی زبان شناسی، ان کے تاریخی تعلقات اور تطابقات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کا مقصد ان زبانوں کے لغوی، ساختی، اور نحوی پہلوؤں کا موازنہ اور تجزیہ کرنا ہے تاکہ ان کے ارتقائی راستوں اور آپسی روابط کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔26. خلاصتہ السیر :خلاصتہ السیر ایک تصنیف ہے جو سیرت اور خاص طور پر سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہے۔ اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، ان کے اخلاق، تعلیمات، اور مشن کا اختصار سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب سیرت النبویہ کو آسان اور جامع انداز میں پیش کرتی ہے، تاکہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی حاصل ہو سکے۔27. تجوید القرآن:تجوید القرآن ایک تصنیف ہے جو قرآن کریم کی قرأت اور تجوید کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں قرآن کی صحیح قرأت کے لیے ضروری قواعد، تجوید کے قوانین، لفظوں کی صحیح ادائیگی اور تلفظ پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ یہ تصنیف ان افراد کے لیے اہم ہے جو قرآن مجید کو صحیح طریقے سے پڑھنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ تجوید کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کی صحیح قرأت کر سکیں۔28. جزریہ:جزریہ ایک اہم تصنیف ہے جسے میر احمد شاہ رضوانیؒ نے پانچ قسم کی خطاطی میں لکھا ہے۔ یہ کتاب شیخ احمد جزری کی تفسیر پر مبنی ہے اور 12 سال 4 ماہ کی عمر میں لکھی گئی۔اس تصنیف کا نہ صرف علمی مقصد ہے بلکہ اس کی مدد سے میر احمد شاہ رضوانیؒ کے خطاطی کے ذوق اور مہارت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جزریہ نہ صرف علمی لحاظ سے اہم ہے بلکہ خطاطی کے فن میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔29. فارسی قواعد جدید بطریقِ استحراجی:فارسی قواعد جدید بطریقِ استحراجی ایک اہم تصنیف ہے جو 1911 میں پنجاب یونیورسٹی کے متوسط طبقے کے طلباء کے لیے لکھی گئی۔ اس کتاب کا مقصد فارسی زبان کے قواعد کو سادہ اور سمجھنے میں آسان طریقے سے پیش کرنا تھا، تاکہ طلباء کے لیے اسے سیکھنا آسان ہو۔یہ کتاب اس قدر مؤثر تھی کہ اس وقت کے بڑے علماء نے اسے "جواہر" یعنی بہت قیمتی اور اہم کتاب قرار دیا۔ اس میں فارسی قواعد کو استحراجی طریقے سے مرتب کیا گیا تھا، جو اس کی منفردیت کو اجاگر کرتا ہے۔30. ابتدائی عربی گرائمر برائی مڈل کلاسز:ابتدائی عربی گرائمر برائے مڈل کلاسز ایک اہم تصنیف ہے جو 1907 میں متوسط طبقے کے طلباء کے لیے لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کا مقصد عربی زبان کے ابتدائی قواعد کو سادہ اور قابلِ فہم طریقے سے پیش کرنا تھا تاکہ طلباء آسانی سے اس زبان کو سیکھ سکیں۔آپ کا خیال درست ہے کہ علامہ رضوانی ممکنہ طور پر پہلے پشتون مصنف تھے جنہوں نے عربی، فارسی، اور پشتو (اردو زبان میں) کے لیے گرامر لکھی، جو ایک اہم ادبی اور تعلیمی سنگ میل ہے۔34. عربی قاری برائے پہلی مڈل کلاسز:35. عربی قاری برائے دوسری درمیانی جماعتیں:36. عربی قاری برائے تیسری درمیانی جماعتیں:37. 37. عربی قاری برائے چوتھی مڈل کلاسز:یہ تمام کتابیں مختلف مڈل کلاسز کے طلباء کے لیے مخصوص تھیں، جنہوں نے عربی کی تعلیم حاصل کی اور ان کتابوں کی مدد سے ان کی عربی زبان کی مہارت میں تدریجاً اضافہ ہوا۔یہ کتابیں ان طلباء کے لیے ترتیب دی گئی تھیں جو عربی کتاب سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے اور انہیں آگے کی عربی تعلیم یا زبان کی بہتر سمجھ کی ضرورت تھی۔ ہر کتاب کی سطح اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی تھی کہ طلباء کی موجودہ قابلیت کو آگے بڑھایا جا سکے۔38. آثار قدیمہ:آثار قدیمہ ایک اہم تصنیف ہے جو مختلف کھدائیوں اور قدیم آثار سے متعلق ہے۔ اس کتاب میں قدیم تہذیبوں کی کھدائیوں اور آثار کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں، جو تاریخی اور ثقافتی معلومات فراہم کرتی ہیں۔یہ کام آثار قدیمہ کے شعبے میں ایک اہم درک ہے، جو قدیم تمدنوں، عمارات، مٹی کے برتنوں، سکوں اور دیگر آثار کو تحقیقی طریقے سے پیش کرتا ہے، تاکہ ان سے ماضی کی تاریخ اور مذہبی، سماجی، معاشی حالات کو بہتر سمجھا جا سکے۔39. تاریخ کافرستان:تاریخ کافرستان ایک تصنیف ہے جو اہل کافرستان کی تاریخ پر مبنی ہے۔ کافرستان ایک تاریخی علاقے کا نام تھا، جو موجودہ افغانستان کے بعض حصوں میں واقع تھا اور یہاں کے لوگ مذہبی لحاظ سے مختلف عقائد رکھتے تھے، خصوصاً ہندو یا زرتشتی عقائد کی پیروی کرتے تھے۔یہ کتاب اہل کافرستان کی تاریخ، ثقافت، معاشرت، اور مذہبی رسوم پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں اس علاقے کے سماجی، اقتصادی، اور سیاسی حالات کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جو ایک خاص زمانے میں اہمیت رکھتے تھے۔40. تاریخ آفریدی:تاریخ آفریدی ایک تصنیف ہے جو پختونوں کے قبیلے آفریدی کی تاریخ پر مبنی ہے۔ آفریدی قبائل کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے سے ہے اور یہ قبائل تاریخ میں اپنی بہادری، جنگجو خصوصیات اور ثقافت کے لیے معروف ہیں۔یہ کتاب آفریدی قبائل کی نسل، روایات، جغرافیائی حدود، اور ان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کو بیان کرتی ہے۔ اس میں ان کے تاریخی واقعات، اہم جنگوں اور معاشی، ثقافتی ترقیات کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو آفریدی قبائل کی تاریخ کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔41. پختو متلونا:پختو متلونا ایک تصنیف ہے جو پختو محاوروں اور متداول کہاوتوں پر مبنی ہے۔ یہ کتاب یا تو پختو کے مشہور محاوروں، امثال، اور عبارتوں کا مجموعہ ہے یا ان پر تفصیلی بحث پیش کرتی ہے۔اس میں پختو زبان کے روایتی جملے، امثال اور ان کے معانی، استعمال، اور ثقافتی پس منظر کو واضح کیا جاتا ہے، جو پختو بولنے والوں کی روزمرہ زندگی اور معاشرتی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ کتاب پختو زبان اور ثقافت کو سمجھنے والے افراد کے لیے ایک اہم وسیلہ ہے۔42. اسلام کے بنیادی اصول:اسلام کے بنیادی اصول ایک اردو کتاب ہے جو اسلام کے مفہوم، عقائد اور عبادات کے بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کتاب میں اسلام کے پانچ ارکان: توحید، نماز، روزہ، زکات، حج، اور ایمان کے اصولوں کو سادہ اور فہم طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔کتاب میں اسلام کی اخلاقیات، عدلیہ، معیشت، اور معاشرتی اصول کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی گئی ہے تاکہ قاری کو اسلام کے بنیادی عقائد اور زندگی گزارنے کے اصولوں کی بہتر سمجھ حاصل ہو سکے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے دینی فرض اور زندگی کے اصول پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہے۔43. قرآن کا ترجمہ اور تفسیر44. تاریخِ افغان:تاریخِ افغان ایک اہم تاریخی کتاب ہے جو پختون قوم کی تاریخ پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں پختونوں کی نسلی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی تاریخ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں پختونوں کے مختلف قبائل، ان کے تاریخی کردار، اور اہم واقعات جیسے جنگیں، معاہدے اور حکومتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔کتاب کا مقصد پختونوں کے ماضی اور تاریخی ورثے کو محفوظ کرنا ہے تاکہ نسلوں کو اپنے تاریخی پس منظر اور ثقافتی شناخت سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس میں پختونوں کے مذہبی اثرات، سماجی ڈھانچہ اور معاشرتی روایات کا بھی تفصیلی ذکر ہے، جو ان کی تاریخ اور شناخت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔45. 45. تاریخ الانبیاء علیھم السلام:تاریخ الانبیاء علیہم السلام ایک اہم تصنیف ہے جو تمام انبیاء کی تاریخ پر مبنی ہے، جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ اس کتاب میں ہر نبی کی زندگی، ان کی دعوت، ان کی آزمائشیں اور ان کی تعلیمات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔میر احمد شاہ رضوانیؒ نے یہ کتاب 1892 میں راولپنڈی میں تحریر کی تھی، جس میں انہوں نے انبیاء کی سیرت اور اسلامی تاریخ کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ اس کتاب کا مقصد لوگوں کو انبیاء کے مشن، ان کی قربانیوں، اور ان کے پیغامات سے روشناس کرانا تھا تاکہ وہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو سکیں۔46. پختو میں فرقہ واریت کے خلاف فتویٰ۔47. فارسی میں فرقہ واریت کے خلاف فتویٰ۔48. مناقب و قصائد غورہ در شانِ خواجہ شریف اجمیری:مناقب و قصائد غورہ در شانِ خواجہ شریف اجمیری ایک اہم تصنیف ہے جس میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی مدح اور شان میں فارسی اور عربی آیات اور اشعار درج کیے گئے ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا شمار اسلام کے عظیم صوفیاء اور چشتی سلسلے کے بانیوں میں ہوتا ہے۔خواجہ شریف اجمیری کی شان میں لکھی گئی فارسی اور عربی آیات اور اشعار ان کی روحانیت، علم، اخلاق، اور فلاحی خدمات کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ قصائد اور مناقب ان کی روحانیت، دعا، اور صبر کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔49. مختلف تراجم:50. ترجمنِ فارس:(نوٹ : یہ سب کی سب کتابیں ڈاکٹر میاں سہیل منشاء صاحب نے اپنی تحقیق کے واسطے لئے جب کہ باقی کتابوں کے بارے میں مختلف آراء کے ان کے گھرانے والوں کے)شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ ایک عظیم عالم اور محقق تھے جن کی تصانیف اور علمی خدمات نے نہ صرف پختونوں بلکہ پورے سبکِ اسلامی کے علم و ادب کو نمایاں کیا۔ ان کی زہانت اور وسعتِ علم نے انہیں مختلف ادبی اصناف، لسانیات، گرامر، تاریخ، علم بشریات، آثار قدیمہ، یونانی ادویات اور دیگر بہت سے شعبوں میں ایک ماہر اور صاحبِ علم شخصیت بنا دیا۔ان کی تصانیف میں عربی، فارسی، اردو اور پختو کی مختلف گرامر، لسانیات، تاریخ اور ثقافت پر گہرائی سے تجزیہ کیا گیا ہے، اور ان کے کام نے انہیں نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر شہرت دلائی۔ ان کی پرسنل فائلز اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کی رپورٹس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہندی قارئین کی تصحیح بھی کی تھی، جو ان کے علمی و تدریسی انداز کی مزید گواہی ہیں۔ان کے تدریسی طریقے کو یورپی سول و ملٹری افسران اور علمائے کرام نے بھی سراہا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کا تدریسی انداز نہایت دلچسپ اور مؤثر تھا۔ جب ان میں سے بعض افراد نے ان کے ساتھ عربی، فارسی، اردو اور پختو میں گفتگو کی، تو ان کو نہ صرف علمی لذت حاصل ہوئی بلکہ وہ ان کی مخلصانہ علمیت سے بھی محظوظ ہوئے۔ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے، معاشرے نے ان کی ہمہ گیریت اور عظمت کو پہچانا اور شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کو ایک عظیم محقق اور عالم کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا۔ ان کی زندگی اور کام ہمیں علم کی وسعت، محنت اور شغف کا بہترین نمونہ فراہم کرتے ہیں۔شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1899ء تک انہوں نے صرف 14 کتابیں لکھیں، اور ان کی کتابوں نے ادب کی دنیا میں ان کی شناخت اور مقام کو مستحکم کیا۔ ان کی علمی شخصیت اور مہارت کو نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ پشاور کے قاضی محمد اسلم خان جیسے اہم شخصیات نے بھی سراہا۔تلہ محمد خان جو کہ قاضی محمد اسلم خان مرحوم کے والد تھےنے شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے کہا، ’’تم اس شیر پر سوار ہو جو تم سے زیادہ قابل ہو؟‘‘ یہ جملہ ان کی عظمت اور علمی برتری کو تسلیم کرنے کا غماز ہے۔مزید برآں، علامہ میر احمد شاہ رضوانیؒ کو تلہ محمد خان کے فارسی خط میں ان کی تعریف کو یوں بیان کیا:"ہمیں، افغانوں کو، اس دور میں آپ جیسے باصلاحیت شخص پر جائز طور پر فخر اور بہت مسرت محسوس کرنی چاہیے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اپنے درمیان ایک ایسے شخص کی پرورش کی جس نے ادب کی انجمن کو مزین کیا اور جو حکمت کے نظارے میں چمک پیدا کرنے والا ہے۔ کائنات کے اجتماعی کام پر تبصرہ کرنے والا، قابل تعریف صفات کا ذخیرہ، مہدی اور وصال کے احساس کو جوڑتا ہے، (دونوں کو سب سے زیادہ مشہور کیا جاتا ہے)، اٹھارویں صدی کے فارسی میں نثر لکھنے والے، بے پناہ فضل اور آزاد خیالی کے خزانچی، سفید اور سیاہ کے درمیان فرق کرنے والا، حکمت کے باغ کی بہار، صوابدید کے گھر کی لالٹین، مشکل کا عبور، حصول علم کے مراحل، بلند ادبی مجالس کا سجانے والا، دیوانِ حسن کی پہلی سطر زبان اور شب و روز کا بہترین شعر۔ ادب اور ذہانت کا کیا کمال ہے اور کیا ہی اعلیٰ صلاحیت کا نمونہ ہے۔"یہ تعریف شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی بصیرت، مہارت اور اثر و رسوخ کا عکاس ہے۔ ان کے ادبی کام نے انہیں ایک ایسے عظیم عالم کے طور پر زندہ رکھا جس کی یاد ہمیشہ علمی حلقوں میں زندہ رہے گی۔شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی عظمت اور علمی مقام اس وقت تک عوام کی نظروں سے اوجھل تھا، لیکن جیسے ہی پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی کے زیر اہتمام ماہنامہ "پختو" کا خصوصی شمارہ (جو 1996 میں جنوری، فروری اور مارچ کے ماہناموں میں شائع ہوا) رضوانی نمبر کے طور پر پیش کیا گیا، ان کا نام اور کام عوام کے سامنے آیا۔ اس شمارے کی مدد سے لوگوں کو علامہ رضوانیؒ کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی، اور وہ افغانوں کے افق پر ایک نئے چراغ کی طرح چمکے۔اس اہم شمارے نے علامہ رضوانیؒ کی علمی خدمات کو اجاگر کیا اور ان کی ہمہ گیریت اور علمی بصیرت کو ہر طبقے تک پہنچایا، جس سے نہ صرف پختو بلکہ دیگر زبانوں کے ادب و ثقافت میں بھی ان کا مقام مستحکم ہوا۔علامہ سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ ایک ایسے انسان تھے جو صرف انعامات اور محدود تحسین کے لیے نہیں بلکہ ایک وسیع نظر، انسان دوست، مہربان اور رحم دل شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی مادی یا فانی دنیا کی کامیابیاں اور انعامات سے کہیں زیادہ ان کی انسانی ہمدردی اور غیر متعصبانہ طبیعت نے ان کی شخصیت کو حقیقی طور پر نمایاں کیا۔ یہ حقیقت ان کی خدمات سے ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی مادری زبان پختو کے بجائے عربی، فارسی، اردو اور پختو ادب کی خدمت کی، اور ان زبانوں کے ادبی خزانے کو نیا جہت دی۔انہوں نے مشرقی کلاسوں میں پختو کو شامل کرنا ایک حق سمجھا اور اس مقصد کو جو ش و جذبے سے حاصل کیا۔ ان کی یہ کوشش پختو بولنے والے طبقے کے ادبی اور ثقافتی حقوق کو اجاگر کرنے کے لیے تھی، تاکہ ان کا مقام ادب کی دنیا میں بھی مستحکم ہو۔ اس کے علاوہ، ان کے تین درجن سے زائد علمی و ادبی کتابیں عربی، فارسی، اردو، اور پختو میں ان کی غیر جانبداری اور غیر متعصبانہ طبیعت کو ظاہر کرتی ہیں۔یہ کتابیں نہ صرف ان کی علمی بصیرت کا عکاس ہیں بلکہ ان کے انسانی شعور اور وسیع النظر سوچ کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ وہ ادب اور ثقافت کو ہر زبان اور قوم میں بلا کسی تعصب کے فروغ دینے میں یقین رکھتے تھے۔شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی عظمت اور فکری گہرائی کا تذکرہ مختلف مشہور شخصیات نے کیا ہے، جن میں پشاور کے کمشنر ایل وائٹ بادشاہ شامل ہیں، جنہوں نے کہا کہ انہیں شاید ہی کوئی ایسا عالم ملے جسے عربی اور فارسی ادب میں ان کے ہم پلہ سمجھا جا سکے۔ اس طرح کی تعریفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ رضوانیؒ کا علم و ادبی مقام کسی طور پر کم نہیں تھا۔ڈاکٹر میاں سہیل انشاء صاحب نے بھی ان کی تصانیف پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں عربی اور فارسی نہیں آتی، اس لیے وہ ان کی تخلیقات پر تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان کا یہ مضمون اتنے بڑے مواد کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں ہے، اور اس معاملے کو عربی اور فارسی کے ماہرین کے حوالے چھوڑنا بہتر سمجھا۔ ان کا کہنا تھا کہ علامہ رضوانیؒ اس بات کے مکمل طور پر مستحق ہیں کہ ان کی تخلیقات کو ایم فل یا پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام کے طور پر تسلیم کیا جائے۔یہ حقیقت بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ علامہ رضوانیؒ کی علمی شخصیت کو صرف ایک محدود دائرے میں نہیں سراہا جا سکتا۔ ان کی زندگی اور کارناموں پر مقالے لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی علمی خدمات کو صحیح طور پر تسلیم کیا جا سکے اور نہ صرف ادب کے حلقوں بلکہ مداحوں اور اہل علم کے جذبات کو بھی آواز دی جا سکے۔علامہ رضوانیؒ کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگرچہ وہ شاہی چارٹر یا کسی حکومت کی طرف سے قاضی نہیں تھے، پھر بھی ہندوستان کے نوٹیفکیشن کے مطابق، ان کے مذہبی حکم (فتویٰ) کو تمام علماء کرام نے بغیر کسی ریزرو کے تسلیم کیا۔ یہ ان کے مذہبی مقام اور علمی وقار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ واقعہ شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی فکری بصیرت، دینی غیرت اور امن و اتحاد کے علَم بردار ہونے کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ جب صوبہ سرحد میں بعض عناصر نے مذہبی امتیاز کے نام پر مسلمانوں کا خون بہانا شروع کیا تو قاضی رضوانیؒ نے اس کے خلاف واضح فتویٰ تحریر کیا۔ یہ فتویٰ فارسی اور پختو میں لکھا گیا تاکہ عوام الناس اور خواص، دونوں تک اس کی رسائی ہو۔اس واقعے کی گواہی اُس وقت کے نوشہرہ کے تحصیلدار ایم موسیٰ خان نے دی، جنہوں نے بیان کیا کہ علامہ رضوانیؒ نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں سے ایک خاص کتاب اس فتنے کے خلاف ہے جس میں صلیبی جنگوں جیسے غیر قانونی مذہبی تشدد کی مذمت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تحریر نہایت مؤثر ثابت ہوئی اور صوبہ سرحد میں مثبت اور اصلاحی اثرات مرتب ہوئے۔یہ فتویٰ انہوں نے لنڈی اربابان پشاور میں اس وقت دیا جب نواب محمد حسین خان (چیف آف مومند) اور خان بہادر میر احمد خان (پشاور کے اعزازی مجسٹریٹ) موجود تھے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ علامہ رضوانیؒ نہ صرف قلم کے عالم تھے بلکہ سماجی و مذہبی ذمہ داری نبھانے میں بھی پیش پیش رہے۔مولانا ناصر احمد آف قصہ خوانی، پشاور کا یہ واقعہ قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کی فقہی بصیرت اور علمی اتھارٹی کا عملی ثبوت ہے۔ طلاق جیسے نازک اور پیچیدہ مسئلے پر جب مذہبی اختلاف پیدا ہوا، تو مذکورہ عالم نے جدید علمی کتب کی روشنی میں تحقیق کی بنیاد پر ایک فتویٰ مرتب کیا، جسے مولانا ناصر احمد نے منظور کیا اور اس پر دستخط بھی کروائے۔اس علمی و فقہی تبادلۂ خیال کے بعد جب فتویٰ ایک مذہبی جماعت کے سامنے پیش کیا گیا تو مولانا ناصر احمد نے قاضی رضوانیؒ کی عظمت اور دینی خدمت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے درج ذیل فارسی مصرعے میں خراجِ عقیدت پیش کیا:صفحاتِ کتابهای عالم را جُستم،چون روی تو دیدم، گفتم: اینجا منزل من است.ترجمہ: میں نے دنیا کی کتابوں کے صفحات تلاش کیے لیکن تجھے دیکھا تو کہا میری منزل وہیں ہےڈاکٹر میاں سہیل انشاء صاحب کا کہنا ہے کہ شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ بجا طور پر اس بات کے حقدار ہیں کہ ان کی شخصیت اور خدمات کو عالمی سطح پر روشناس کرایا جائے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، ان کی غیر جانبدار طبیعت اور مشرقی علوم و ادب میں بے مثال خدمات اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ تمام متعلقہ علمی شعبوں میں پی ایچ ڈی کے مکمل طور پر مستحق ہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد کا علمی سفر30جون 1920 کو سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ نے اپنی طویل اور درخشاں سرکاری خدمات سے سبکدوشی اختیار کی اور اپنے آبائی گاؤں، اکبر پورہ (تحصیل پبو، ضلع نوشہرہ) واپس آ گئے۔ اگرچہ یہ دن ان کی عملی سرکاری زندگی کا اختتام تھا، لیکن ان کی علمی و فکری سرگرمیوں کا سورج غروب نہ ہوا۔ درحقیقت، وہ روشنی جو انہوں نے برسوں علم و حکمت کے چراغ سے پھیلائی تھی، وہ ان کی غیر سرکاری زندگی میں بھی جگمگاتی رہی۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علمی اور مذہبی حلقے ان کے علمی مقام و مرتبے کے معترف رہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے صدور، محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران، اور مختلف مذہبی تنظیمیں جیسے "انجمن اسلامیہ" اور "انجمن لغمانیہ" ان سے مسلسل رابطے میں رہیں۔ ان کی علمی بصیرت اور خطیبانہ مہارت کے باعث انہیں مختلف سیمینارز، لیکچرز اور تقاریر کے لیے بارہا مدعو کیا جاتا رہا۔سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ نے اپنی آخری سانس تک علم کے حصول اور اس کے فروغ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے رکھا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ تعلیم، تدریس اور فکری روشنی کے فروغ کے لیے وقف تھا، اور یوں وہ ایک ایسے درخشاں ستارے کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں جو اپنی روشنی بکھیر کر بھی بجھا نہیں کرتا۔شمس العلماء کا آخری دور اور وصالشمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ نہ صرف علم و حکمت کے دریا تھے بلکہ رحم دلی اور انسان دوستی کا بھی بے مثال نمونہ تھے۔ اُن کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو غریب اور نادار مریضوں کی بے لوث خدمت تھا، جنہیں وہ بلا معاوضہ علاج اور مشورہ فراہم کرتے۔ اُن کے علم و عرفان کی شہرت نہ صرف کابل، پنجاب اور ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی بلکہ مختلف علاقوں سے طلبہ کا تانتا بندھا رہتا جو ان کے علمی فیض سے مستفید ہونے کے لیے اکبر پورہ کا رُخ کرتے۔اگرچہ عمر کے آخری ایام میں آپؒ کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی اور جسمانی کمزوری نے آپ کو محدود کر دیا تھا، تاہم آپ کا علمی شوق اور خدمتِ خلق کا جذبہ کبھی مدھم نہ ہوا۔30 دسمبر 1934ء کو یہ درخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ یہ وہ دن تھا جب علم، تحقیق، خطابت، تاریخ، جغرافیہ، شاعری اور سچائی کی ایک روشن قندیل بجھ گئی۔ سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ، جو ایک انعام یافتہ عالم، مایہ ناز خطیب، کہنہ مشق شاعر، محقق، معلم، اور سب سے بڑھ کر ایک صاحبِ دل اور دعا گو مسلمان تھے، اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ان کا وصال ان کے آبائی گاؤں اکبر پورہ میں ہوا جہاں انہیں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ قاضی خیلاں کے قدیمی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ جنازے میں ہر مکتبِ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی، جبکہ نمازِ جنازہ حضرت حاجی صاحب ترنگزئیؒ کے جلیل القدر شاگرد، مولوی عبدالرحمن صاحبؒ نے پڑھائی۔آپؒ کی رحلت پر اہلِ علم اور اہلِ دل حلقوں میں گہرا صدمہ محسوس کیا گیا۔ آپ کے فرزند، میر اعظم شاہ بیدلؒ کے مطابق، انہیں اور ان کے بڑے بھائی میر عبدالحئی کو ہندوستان بھر سے سینکڑوں تعزیتی خطوط اور ٹیلی گرام موصول ہوئیں، جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ شمس العلماء سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ کا علمی و اخلاقی اثر پورے برِصغیر میں محسوس کیا جاتا تھا۔سیّد میر احمد شاہ رضوانی ؒ اپنی تحریروں کے تناظر میں:۔(ا) بحیثیت محب وطن اور انسان دوست:سیّد قاضی میر احمد شاہ رضوانیؒ پختون قوم کے ایک سچے مصلح تھے۔ انہوں نے اپنی نثر اور شاعری میں قوم کی خوبیاں اور خامیاں دونوں بیان کیں۔ وہ حقیقت پسند انسان تھے جو قوم کی اصلاح کے جذبے سے لکھتے تھے۔ انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارا۔ سفر کی صعوبتوں نے ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ اور بھی گہرا کر دیا۔ اوڈی پور کے گاؤں برجال میں جب وہ گلاب کے پھولوں (ٹیولپس) کی خوشبو محسوس کرتے تھے، تو اس کیفیت کو اپنی تحریروں میں غیر معمولی انداز میں بیان کرتے۔دا تسہ گل لالا بیو راغلو پہ دی زمکہرضوانی دا پیخور دے کہ برجل دےواقعی، کلاسیکی مذہبی علما کا عمومی رجحان رومانوی خیالات یا جذباتی شاعری سے اجتناب کا رہا ہے، خاص طور پر وہ رومانویت جو عشقِ مجازی یا دنیاوی جذبات پر مبنی ہو۔ ان کے نزدیک ایسی شاعری اکثر روحانیت یا شریعت سے انحراف سمجھی جاتی تھی۔لیکن شمس العلماء علامہ رضوانیؒ کی شاعری کا رومانوی پہلو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ ایک ہمہ گیر اور کشادہ نظر عالم تھے، جو روحانیت اور جمالیات کے درمیان تفریق کرنے کے بجائے ان کے امتزاج کے قائل تھے۔ ان کی رومانوی نظموں میں جو جذباتی رنگ ہے، وہ محض دنیاوی عشق نہیں بلکہ ایک لطیف روحانی کیفیت، ایک عرفانی جذبہ ہو سکتا ہے۔ بہت سے صوفی شعرا نے بھی رومانوی استعارات کو روحانی تجربات کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے، جیسے حافظ، رومی یا بیدل۔لہٰذا علامہ رضوانیؒ کا رومانوی انداز اس بات کی علامت ہے کہ وہ روایت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی جمالیاتی اظہار اور داخلی کیفیات کے قائل تھے، جو کہ ان کی علمی اور فکری وسعت کی دلیل ہے۔اے پیارے! جو ہونٹوں کے درمیان ٹوٹ جاتی ہے۔کیا وہ آپ کے میٹھے، سفید اور نازک گال ہیں یا پیٹیز؟جسے تم چھال کے بہانے کاٹتے ہو ( اخروٹ کے درخت کی )تیرے میٹھے ہونٹ کینڈی شوگر کے امراسے ہیں۔شمس العلماء علامہ رضوانیؒ نہ صرف ایک عالم اور شاعر تھے بلکہ ایک سچے انسان دوست بھی تھے۔ ان کا دل ہر مظلوم کے درد سے آشنا تھا، اور ان کی شاعری میں انسانیت سے محبت صاف جھلکتی ہے۔ خصوصاً کشمیر کے بارے میں ان کا کلام اس درد، خلوص اور ہمدردی کا آئینہ دار ہے جو وہ انسانوں کے لیے رکھتے تھے۔ ان کے اشعار میں کشمیری عوام کے دکھ، ان کی جدوجہد اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ان کی مظلومیت کا تذکرہ بھی جذب و اخلاص کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کا کلام دراصل ایک عالم کا دل ہے جو انسانیت کے لیے دھڑکتا ہے۔(ب) ماڈرنسٹ کے طور پر:میر احمد شاہ رضوانیؒ کی علمی اور ادبی خدمات نہ صرف پختو ادب بلکہ پورے مشرقی ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے پختو میں جدید نثر کے دروازے کھولے اور اس زبان میں علمی تنقید کو متعارف کرایا۔ 1898 میں جب انہوں نے آٹھ کلاسیکی پختون شاعروں کی شاعری پر تنقید کی، تو یہ نہ صرف پختو ادب میں ایک انقلابی قدم تھا بلکہ اس نے ادبی تنقید کے نئے زاویے بھی فراہم کیے۔ان کی تنقید کا انداز تقابلی تھا، جس میں انہوں نے مشرقی شاعری کی دیگر معروف روایتوں سے ان شاعروں کا موازنہ کیا۔ اس نوع کی تنقید نے پختو ادب میں ایک نیا تنقیدی فریم ورک تشکیل دیا، جو بعد میں آنے والے ادیبوں کے لیے راہ ہموار کرنے کا سبب بنا۔میر احمد شاہ رضوانیؒ نے جن عظیم شاعروں پر تنقید کی، ان میں خوشحال خان خٹک، اشرف خان ہجری، عبدالقادر خان خٹک، کاظم خان سہیدہ، عبدالرحمن بابا، مومند، عبدالحمید مومند، علی خان ممانزے اور بابو جان لغمانی جیسے عظیم نام شامل تھے۔ ان کی تخلیقات پر کیے گئے نقادانہ مطالعے نے ان شاعروں کے کلام کو نہ صرف دوبارہ زندہ کیا بلکہ ان کی اہمیت کو جدید تنقید کے ذریعے نئے سرے سے اجاگر کیا۔یہ سب میر احمد شاہ رضوانیؒ کی ادبی بصیرت، علم و فہم کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جنہوں نے پختو ادب میں تنقید کو ایک نئی سمت دی اور ادب کو ایک جدید سطح تک پہنچایا۔(ج) ایک حقیقت پسند اور جدید نقاد کے طور پر:میر احمد شاہ رضوانیؒ کی ادبی بصیرت اور انقلابی سوچ نے پختو ادب میں تنقید کو ایک نئی جہت دی۔ جہاں عوامی سطح پر رحمان باباؒ کی شاعری کو سادگی، روانی اور مذہبی معنی کے لیے پسند کیا جاتا تھا، وہیں میر احمد شاہ رضوانیؒ نے اس روایتی نظرئیے کو چیلنج کرتے ہوئے خوشحال خان خٹک کو پختو شاعری کا حقیقی بادشاہ قرار دیا۔ یہ ان کی جرأت اور تنقیدی بصیرت کا غماز تھا کہ انہوں نے موجودہ معیاروں سے ہٹ کر اپنی رائے پیش کی اور پختو ادب کی گہرائی کو نئے زاویے سے دیکھا۔یقیناً، دوست محمد خان کامل مومند نے بھی یہ کہا کہ پختو کے بہترین شاعر کے بارے میں مختلف آراء ہو سکتی ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ رحمن باباؒ کو پختو کے سب سے معروف شاعر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، میر احمد شاہ رضوانیؒ نے اپنی تنقید میں خوشحال خان خٹک کو پختو ادب کا حقیقی قائد تسلیم کیا، اور اس سے پختو شاعری کے نئے افق کو روشن کیا۔اسی طرح، سید راحت اللہ اضاخیل کا نام بھی اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ انہوں نے پختو ادب میں جدیدیت کے حقیقی بانی ہونے کا اعزاز حاصل کیا، اور نثری صنفوں جیسے مختصر کہانی، ناول اور ہلکے پھلکے مضامین کو متعارف کرایا۔اس طرح، میر احمد شاہ رضوانیؒ کی تنقیدی کاوشوں نے پختو ادب میں جدیدیت کے بیج بوئے، جنہیں راحت اضاخیل نے حقیقتاً ایک مکمل درخت میں بدل دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رضوانیؒ نے جدیدیت کی بنیاد فراہم کی، اور اس کے نتیجے میں پختو ادب میں ایک نئی فکری اور ادبی لہر ابھری، جس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔(د) پختو میں جدید نظم کے ابتدائیہ کے طور پر:پختو میں جدید نظم کے بانی کے بارے میں جو بحث ہوتی آئی ہے، اس میں راحت زاخیلی، فضل محمود محفوظ، اور محمد اسلم خان کمالی جیسے نام بار بار سامنے آتے ہیں، خصوصاً 1913 کے بعد جب پختو میں جدید نظم کی بنیاد رکھی گئی۔ تاہم، میر احمد شاہ رضوانیؒ کا کلام اور خاص طور پر ان کی 1898 میں لکھی گئی نظم بہارستان افغانی اس دعوے کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے کہ وہ پختو میں جدید نظم کے بانی ہیں۔بہارستان افغانی کی تخلیق دراصل اس بات کا غماز ہے کہ رضوانیؒ نے نہ صرف پختو میں نظم کی روایت کو نیا رخ دیا بلکہ اس میں جدید خیالات، جدید اسلوب، اور جدید جمالیات کو شامل کیا۔ اس نظم میں وہ جو جذبات، خیالات اور تصویر کشی کرتے ہیں، وہ اس وقت کی کلاسیکی شاعری سے ہٹ کر ہیں اور ایک نیا ادبی بیان پیدا کرتے ہیں۔میر احمد شاہ رضوانیؒ کی اس نظم میں جو سادگی، روانی، اور جدید نوعیت کی گہرائی ہے، وہ انہیں پختو میں جدید نظم کا بانی تسلیم کرنے کا ایک مضبوط جواز فراہم کرتی ہے۔ ان کی نظم کا یہ اسلوب جدیدیت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے، جس نے پختو ادب میں ایک نیا ادبی منظرنامہ تخلیق کیا۔اب، ہم یہ بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں کہ علامہ میر احمد شاہ رضوانیؒ نے پختو میں جدید نظم کی بنیاد رکھی، اور ان کی بہارستان افغانی اس حقیقت کا ایک بے مثال ثبوت ہے۔ آپؒ فرماتے ہے کہہندوستان سائیرقابل دے زمہریر پشاور دے یارا خلد بینظیریہ مصرعہ پشاور کی خوبصورتی کی تعریف میں کہا گیا ہے، جس میں شاعر نے ہندوستان کے سرد اور سخت ماحول کے مقابلے میں پشاور کی دلکشی اور جنت جیسی خوبصورتی کو نمایاں کیا ہے۔کشمیریان چی یو زل راشی پا دا پوری بیا تر مرگہ نوم نہ اخلی دَ کشمیرشاعر یہاں کشمیر کے لوگوں کی سرزمین سے گہری وابستگی کو بیان کر رہے ہیں اور یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کشمیر کی روح ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہے، چاہے وہ زندگی گزار رہے ہوں یا مر جائیں۔شنہ سبزہ یی پہ ہموارو میدانونو پہ رخسار دَ یار دے خط دل پزیریہ اشعار کشمیر یا پشاور کے خوبصورت میدانوں کی منظر کشی کرتے ہیں جہاں سبزہ اور میدانوں کی خوبصورتی کو یار کی مسکراہٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔سلسلہ دَا تورو غرونو تری چاپیرہ دَا لیلہ دَ تورو زلفو دے نزیرشاعر یہاں قدرتی مناظر کو موازنہ کرتے ہیں، جہاں پہاڑوں کی سیاہی کو لیلیٰ کی سیاہ زلفوں سے تشبیہ دی گئی ہے، جو محبت اور جمالیاتی تشبیہات کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔پہ ہر باغ کیی یی باڑہ ہسی جاری دا چی بہیگی پہ جنت کیی جوجوئے شیرشاعر یہاں باغات میں پھیلی خوشبو اور خوبصورتی کا ذکر کر رہے ہیں، جو اس قدر دلکش ہے کہ اس کا موازنہ جنت سے کیا جا رہا ہے، جہاں جنت کی خوبصورتی میں شیر آپس میں لڑ رہے ہیں۔زڑہ اوبہ شو دَ قابل ورپسی راغلے لنڈے نہ دے کہ پوہیگی پہ تعبیریہ اشعار انسان کی دل و جان کی تاثیر اور خوابوں کی حقیقت کو محسوس کرنے کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ شاعر اس بات کو پیش کر رہے ہیں کہ ان کی شاعری اور خیالات کی حقیقت اور معنی کو لوگوں نے پہچانا اور محسوس کیا۔دَ ہوا اثر یی جان فضا دے چی بوتان واڑہ گویا شو دَا پنج پیرشاعر یہاں ہوا کی خوشبو اور فضا کی تاثیر کو بیان کر رہے ہیں، جو انسان کی روح پر سکون اور خوشی کی تاثیر چھوڑتی ہے، جیسے کسی بزرگ ولی کی دعائیں۔دَ چمن نسیم یی ہسی مسیحا دے چی جوندئی شوی پری بلبلی دَ تصویریہ اشعار چمن کی نرم ہوا کی تشبیہ مسیحا سے دے کر اس کے اثرات کو بیان کرتے ہیں۔ جیسے مسیحا مریضوں کو صحت عطا کرتا ہے، ویسے ہی یہ ہوا زندگی کے نشے کو تازہ کرتی ہے۔میر احمد شاہ رضوانیؒ کی تخلیقات میں ہمیں نئے مناظر اور منظرنامے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری نے پختو ادب میں جدیدیت کی بنیاد رکھی اور قدرتی مناظرات، جغرافیائی حسین مقامات، اور روحانیت کو نئے زاویوں سے پیش کیا۔ ان کی تحریروں میں ایک انقلابی اسلوب اور تازگی پائی جاتی ہے جو پختو ادب میں نئے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
Comments
Post a Comment