سیّد قاضی الحافظ عبدالرحمٰن بخاری نقشبندی مجددی ؒ/ Syed Qazi Alhafiz Abdur Rehman Bukhari Naqashbandi

 

سیّد قاضی  الحافظ عبدالرحمٰن بخاری نقشبندی مجددی ؒ

برِّصغیر میں دین کی اشاعت اور خانوادۂ بخاریؒ کا کردار

برِّصغیر پاک و ہند کی تاریخ گواہ ہے کہ دیگر اقوام و ممالک کی طرح یہاں بھی دینِ اسلام کی اشاعت، حفاظت اور فروغ کا عظیم کارنامہ علمائے ربانی، مشائخِ صوفیہ اور اولیائے کاملین کے دستِ مبارک سے انجام پایا۔ ان مردانِ حق نے نہ صرف اطراف و اکناف میں رشد و ہدایت کے چراغ روشن کیے بلکہ ہر دور میں امت کی دینی، اخلاقی اور روحانی قیادت کا فریضہ بھی احسن انداز میں سرانجام دیا۔

جب بھی برِّصغیر میں حمایتِ اسلام کی کوئی تحریک ابھری، اُس کے پس منظر میں انہی بوریا نشین درویشوں کی خلوص بھری محنت اور سوز دروں کی حرارت کارفرما رہی۔ اگر کبھی گلشنِ اسلام پر کوئی اندھی آندھی آئی یا اس کے چراغوں کو بجھانے کی کوشش کی گئی، تو یہی مردانِ حق سینہ سپر ہو کر میدان میں اترے، اور باطل کے ہر فتنہ کو پامال کرتے ہوئے اسلام کی تابانی اور طہارت کو قائم رکھا۔

پختونخواہ کی دینی و علمی تاریخ میں بھی چند نام ایسے ہیں جنہیں غیر معمولی قبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ ان میں حضرت سیّد قاضی حافظ عبدالرحمٰن بخاری نقشبندیؒ اور اُن کے فرزندِ رشید حضرت سیّد قاضی حافظ عبداللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددیؒ (متوفی 1206ھ)،ان جلیل القدر ہستیوں اور ان کے خانوادے نے اپنی روحانی، علمی، اصلاحی اور اجتماعی خدمات کے ذریعے نہ صرف اس خطے میں دینِ اسلام کی شمع کو فروزاں رکھا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک درخشاں ورثہ چھوڑا۔

بارہویں صدی ہجری میں جب دینی زوال اور فکری انحطاط کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا گئے، تو ربِّ ذوالجلال نے برصغیر کے مختلف خطّوں میں اپنے دینِ مبین کی تجدید، احیاء اور اشاعت کے لیے چند برگزیدہ نفوس کو منتخب فرمایا۔ جس طرح دہلی کی سرزمین پر امام المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور اُن کی پاکباز اولاد نے علمی و روحانی انقلاب کی بنیاد رکھی، اُسی طرح سرزمینِ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) میں بھی اللہ تعالیٰ نے چند ایسی بلند مرتبت ہستیوں کو منصۂ شہود پر جلوہ گر فرمایا، جنہوں نے ایمان و عرفان کے چراغ روشن کیے۔

ان جلیل القدر بزرگوں میں حضرت میاں عمر صاحب چمکنیؒ، راہِ حق کے عظیم شہید شیخ زکریا المعروف شہید میاں صاحبؒ (میاں گجر)، عارفِ وقت حضرت سیّد قاضی حافظ عبدالرحمٰن نقشبندیؒ، اور ان کے فاضل و متقی فرزند حضرت سیّد قاضی حافظ عبداللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددیؒ خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ان اولیائے کرام نے نہ صرف شریعت و طریقت کے گلشن کو سیراب کیا بلکہ اپنے عمل، تعلیمات اور روحانی فیضان سے پورے خطے کو ایمان کی روشنی سے منور کر دیا۔

یہ چاروں حضرات نہ صرف ہم عصر اور وقت کے جلیل القدر اولیاء اللہ تھے بلکہ ایک ہی روحانی سلسلہ، یعنی حضرت شیخ محمد یخیٰ المعروف حضرت جی اٹک باباؒ کے خلیفہ اور پیر بھائی بھی تھے۔ ان کا اخلاص، تقویٰ، اور للّٰہیت ایسی تھی کہ انہوں نے خود کو کسی ایک شعبے تک محدود نہ رکھا۔ دین، علم، سیاست، ادب، اصلاحِ معاشرہ اور رفاہِ عامہ ہر میدان میں اپنی موجودگی کا بھرپور اور مثبت اثر چھوڑا۔

ان بزرگوں کی خدمات صرف روحانی حلقوں تک محدود نہ تھیں، بلکہ ان کی حیات طیبہ کے اثرات اجتماعی سطح پر بھی محسوس کیے گئے۔ ان میں بالخصوص حضرت سیّد قاضی حافظ عبدالرحمٰن بخاریؒ اور حضرت سیّد قاضی حافظ عبداللہ شاہ بخاریؒ کی خدمات نہایت وقیع، نمایاں اور مؤثر رہی ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ اور ذریعہ برکت و ہدایت ہیں۔

شجرہ نسب

آپؒ کا تعلق عظیم روحانی سرزمین ترکستان سے تھا اور آپ سادات کرام میں سے تھے۔ نسبی اعتبار سے آپ سید جلال الدین بخاریؒ کی اولاد میں سے ہیں، جن کا سلسلہ نسب حضرت امام حسینؓ تک جا پہنچتا ہے۔ آپؒ نے سترھویں صدی عیسوی میں دین کی خدمت اور روحانی فیوض کے فروغ کی نیت سے ترکستان سے ہجرت فرمائی ۔

ترکستان سے سرزمینِ ہند کی طرف ہجرت

اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو جہاں چاہے، جس سرزمین میں چاہے، اپنے نور کی اشاعت کے لیے بھیجتا ہے۔ وہ جہاں بھی ہوتے ہیں، ان کی موجودگی زمین کے لیے باعثِ برکت اور لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بن جاتی ہے۔

حضرت سیّد قاضی میر عبد الرحمٰن  بخاری نقشبندی مجددی ؒ نے جب ترکستان کی سرزمین پر قیام فرمایا، تو وہاں رشد و ہدایت کے چراغ روشن کیے، بندگانِ خدا کو سلوک و معرفت کا راستہ دکھایا، اور اصلاحِ قلوب و نفوس کی بزم سجائی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک باطنی اشارہ اور وقت کی مصلحت نے انہیں  ہندوستان کی طرف کوچ پر آمادہ کیا۔یہ ہجرت محض مکانی تبدیلی نہ تھی، بلکہ وہ ایک روحانی تقاضے کے تحت تھی۔ اللہ کے نیک بندے زمان و مکان کی حدود سے ماوراء اللہ کی مشیّت کے تابع ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمٰن بخاری ؒ نے کامل توکل اور رضا بالقضا کے ساتھ اپنا مسکن چھوڑا، اور پشاور کو اپنی رہائش اور دعوت کا مرکز بنایا۔اس نئی سرزمین میں آپؒ کی آمد ایک بہار کی مانند ثابت ہوئی۔ وہاں کے مردہ دل زندہ ہوئے، گناہ گاروں کو توبہ کی توفیق ملی، اور اہلِ دل نے آپؒ کی صحبت میں بیٹھ کر معرفتِ الٰہی کے جام نوش کیے۔ یوں یہ ہجرت، اللہ کی ایک عظیم حکمت اور دینِ حق کے فروغ کا ذریعہ بنی۔

       فریضہ حج کی سعادت:۔

       ہجرت کے بعد حضرتؒ نے پشاور میں قیام فرمایا، جہاں جلد ہی اللہ رب العزّت نے اپنے اس مقرب بندے کو اپنے گھربیت اللہ شریف کی حاضری کا بلاوا عطا فرمایا۔ اس روحانی سفر میں آپؒ کے ہمراہ آپ کے نورِ نظر، فرزندِ ارجمند، حضرت سیّد قاضی حافظ میر عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددیؒ بھی شریک تھے۔ پشاور سے روانگی کے بعد یہ قافلۂ نور پہلے عربستان اور بغدادِ مقدّس پہنچا، جہاں بزرگانِ دین کی بارگاہوں سے روحانی توشہ حاصل کیا، اور پھر آستانۂ خداوندی، بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوا۔

یہ سفر محض فریضۂ حج کی ادائیگی نہ تھا، بلکہ ایک عاشقِ صادق کا اپنے محبوبِ حقیقی کے دربارِ خاص میں حاضر ہونے کا مبارک موقع تھا۔ جب آپؒ نے مکۂ مکرمہ کی سرزمین پر قدم رکھا، تو تواضع، خشیت اور شوقِ وصال کی کیفیات ہر قدم پر نمایاں تھیں۔ پہلی نگاہ بیت اللہ پر پڑی تو آپؒ کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب اُمڈ پڑا، اور دیر تک آپؒ ربِّ ذوالجلال کے حضور سجدہ ریز رہے۔ طواف ہو یا سعی، وقوفِ عرفہ ہو یا قیامِ مزدلفہ و منیٰ ہر ہر مقام پر آپؒ کی عبادت، دعا اور ذکر میں وہ کیف و جذب دیکھنے کو ملا جو صرف اہلِ دل کا خاصہ ہوتا ہے۔آپؒ کی زبان ہر دم ذکرِ الٰہی سے تر، دل فنا فی اللہ کی کیفیت میں ڈوبا ہوا، اور وجود سراپا عجز و انکسار کا پیکر بنا ہوا تھا۔ اس حج کے مبارک سفر میں آپؒ کی دعاؤں کا محور امتِ مسلمہ کی بھلائی، اللہ کی رضا اور بندگانِ خدا کی مغفرت تھا۔

حج کی تکمیل کے بعد آپؒ نے سلسلۂ سلاسلِ اولیاء کی عظیم خانقاہ، درگاہِ حضرت خواجہ غریب نوازؒ، اجمیر شریف کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ جب آپؒ وہاں سے واپس پشاور لوٹے تو اہلِ دل نے گواہی دی کہ حضرت سیّد عبدالرحمٰن بخاریؒ کا چہرہ نورِ الٰہی سے جگمگا رہا تھا، اور اُن کی مجلسیں ایک نئی روحانیت، جاذبیت اور فیضانِ باطن سے مالا مال ہو چکی تھیں۔

یہ مبارک سفر صرف ایک شخص کی روحانی ترقی نہ تھا، بلکہ ایک کامل ولی کے توسط سے اُس کے مریدین، متوسلین، اور وابستگان کے لیے بھی تجدیدِ ایمان اور زندگی کی ایک نئی روحانی لہر لے کر آیا۔ یوں یہ حج، وصال کا ذریعہ، اور رجوع الی اللہ کا ایک نیا باب بن گیا۔

صاحب زادگان :۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت سیّد قاضی میر عبد الرحمٰن نقشبندی مجددیؒ کودوصاحبزدوں، سیّد قاضی حافظ میر عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندی ؒ اور سیّد میر غیاث الدین بخاری کی نعمت سے نوازا۔ سیّد میر غیاث الدین بخاریؒ  بخارا (ترکستان) میں ہی مقیم رہے جب کہ سیّد  قاضی میر عبداللہ شاہ بخاریؒ  نے آپؒ کے ساتھ ہجرت کی ۔ آپؒ کے صاحبزادے دین، علم، تقویٰ اور خدمتِ خلق میں اپنے والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر چلنے والے، بااخلاق، منکسرالمزاج، اور دینِ متین کے سچے خادم تھے۔آپؒ نے ان کی تربیت خود فرمائی، انہیں قرآن و حدیث، فقہ و سلوک، اور اخلاق و آداب کی تعلیم دی۔ بچپن ہی سے ان میں زہد و ورع کے آثار نمایاں تھے۔ حضرتؒ کی مجلسوں میں وہ خاموشی سے بیٹھتے، گوش بر آواز رہتے، اور اپنے والد کے معمولات و احوال کو بغور دیکھ کر سیکھتے۔

وابستگی سلسلہ نقشبندی مجددی :۔

اگرچہ آپؒ خود علم و عرفان کے سمندر، زہد و تقویٰ کے پیکر، اور اہلِ دل کی تربیت کرنے والے شیخ تھے، لیکن سلوک و طریقت کے سفر میں آپؒ نے ہمیشہ اپنے نفس کی اصلاح کو اولین ترجیح دی۔ یہی سبب تھا کہ آپؒ نے کامل شیخ کی تلاش کو ضروری جانا، تاکہ دل کی زمین مزید پاکیزہ ہو اور معرفتِ الٰہی کے خزانے دل میں کھلیں۔

طلبِ حق اور تزکیۂ باطن کے اس جذبے کے تحت آپؒ مختلف مشائخ سے ملاقات فرماتے، ان کی مجالس میں بیٹھتے، اور دل کے حال کو پرکھتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی اخلاص بھری جستجو کو شرفِ قبولیت بخشا، اور آپؒ کی نظر حضرت  محمد یحییٰ المعروف حضرت جی  ؒصاحب اٹک پر جا کر ٹھہری جو کہ باطن کے مجاہد، صاحبِ حال و قال اور کامل شیخ تھے۔

جب آپؒ  حضرت محمد یحییٰ المعروف حضرت جی  ؒصاحب اٹک کی مجلس میں بیٹھے، تو دل میں ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی، آنکھوں سے اشک جاری ہوئے، اور دل نے گواہی دی کہ یہی وہ ہستی ہے جن کے ہاتھ پر بیعت کرنا اللہ کا حکم معلوم ہوتا ہے۔

چنانچہ آپؒ نے عاجزی کے ساتھ حضرت محمد یحییٰ المعروف حضرت جی  ؒصاحب اٹک کے دستِ مبارک پر بیعت کی، اور خود کو مکمل طور پر ان کی تربیت کے سپرد کر دیا۔ اس بیعت کے بعد آپؒ کے باطن میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوا، معرفت میں گہرائی، عبادت میں لذت، ذکر میں استقامت، اور اخلاق میں نرمی و انکسار نمایاں ہو گیا۔یہ بیعت نہ صرف اصلاحِ نفس کا ذریعہ بنی، بلکہ بعد ازاں آپؒ خود بھی ہزاروں سالکین کے لیے رہنما اور وسیلۂ رشد و ہدایت بنے۔

کچھ عرصہ بعد حضرتؒ اپنے صاحبزادے کے ہمراہ دریائے نیلاب کے کنارے خلوت گزیں ہوئے، جہاں شب و روز زہد و ریاضت، مجاہدات اور ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ یہ مقام اُن اہلِ دل کے لیے نور کا سرچشمہ بن گیا، جو سچے دل سے خدا کی طلب رکھتے تھے۔اس کے بعد آپؒ نے کچھ مدت چیل کے کنارے، علاقہ چھچھ میں قیام فرمایا، جہاں چِلّوں اور خلوتوں کے ذریعے سلوک کی منازل طے کیں۔ یہ ریاضتیں ظاہر کرتی ہیں کہ آپؒ کی روحانی جستجو صرف ذاتی فیض کے لیے نہ تھی، بلکہ اُمت کے قلوب کو جگانے کی ایک خاموش محنت تھی۔انہی دنوں، ان مبارک حدود میں حضرت میاں عنصر نقشبندی مجددیؒ کا نور بھی روشن تھا، جو کہ اہلِ باطن میں خدا رسیدہ بزرگ مانے جاتے تھے۔ وہ حضرت شیخ محمد یخیٰ المعروف حضرت جیؒ اٹک کے مریدِ خاص اور خلیفہ تھے، جن کی روحانی نسبت سے پورا علاقہ منور ہو چکا تھا۔آپؒ اور حضرت میاں عنصرؒ کے درمیان محبت و الفت کے رشتے قائم ہونا ایک قدرتی امر تھا، اور ہونا بھی چاہیے تھا، کہ دونوں بزرگ روحانی طور پر ایک ہی چشمۂ معرفت سے سیراب تھے، اور باہم "پیر بھائی" ہونے کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔ ان کی باہمی محبت، اخلاص اور روحانی ہم آہنگی نے علاقے میں ایک نادر روحانی فضا پیدا کر دی، جو آج تک اہلِ دل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

اکبر پورہ تشریف آوری :۔

چند سال اٹک اور علاقۂ چھچھ میں روحانی مجاہدات، چِلّہ کشی، اور ذکر و فکر کی بابرکت مجالس برپا کرنے کے بعد، حضرتؒ تقریباً 1735-36 عیسوی میں واپس پشاور تشریف لائے۔ اس بار آپؒ نے مستقل قیام کے لیے ضلع نوشہرہ کے مشہور و معروف قصبے اکبر پورہ کو منتخب فرمایا، وہی سرزمین جہاں حضور سید عبدالوہاب المعروف اخون پنجو باباؒ جیسے بلند پایہ ولی اللہ محوِ خوابِ ابدی ہیں۔

اکبر پورہ نہ صرف قدرتی حسن، سرسبز مناظر اور فطری سکون کا پُرکیف مرقع تھا، بلکہ یہ سرزمین روحانیت، علم اور عرفان کا گہوارہ بھی بن چکی تھی۔ انہی مبارک ایّام میں حضرت سیّد قاضی حافظ میر عبدالرحمٰن بخاریؒ کی آمد نے اس بستی کو مزید نورِ علم و فیض سے روشن کر دیا۔ آپؒ اپنے زمانے میں علمی، فقہی اور روحانی مقام کے اعتبار سے نمایاں شخصیت کے حامل تھے، اور نادر علی قلی بیگ افشار (1736 تا 9 جون 1747) کے عہدِ حکومت میں پشاور کے مضافات میں منصبِ قضا پر فائز تھے۔

حضرتؒ کی ذات علم و تقویٰ، فہم و فراست، اور زہد و سلوک کا حسین امتزاج تھی۔ ان کی مجلس علم کا سرچشمہ، اور ان کی صحبت روحانیت کا خزینہ تھی۔ آپؒ کا وجود گویا اکبر پورہ کی فضاؤں میں ایک تازہ روحانی خوشبو کی مانند گھل گیا، جس سے نہ صرف اہلِ بستی بلکہ دور دراز سے آنے والے سالکین اور طالبانِ حق بھی مستفید ہونے لگے۔

آپؒ کی بابرکت تشریف آوری نے اکبر پورہ کو علم و عرفان، تقویٰ و طریقت، اور روحانی برکات کا ایک ایسا مرکز بنا دیا، جہاں آنے والوں کو نہ صرف دلوں کا سکون میسر آیا، بلکہ معرفت کی وہ روشنی بھی نصیب ہوئی جس سے زندگیوں کا زاویہ بدل گیا۔ یہ بستی ایک بار پھر اللہ والوں کی آماجگاہ، اور عشقِ حقیقی کے متلاشیوں کے لیے پناہ گاہ بن گئی۔

     وفات اور مدفن :۔

                شمسُ العلما میر احمد شاہ رضوانیؒ اپنی کتاب تحفۃُ الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ حضرت سیّد قاضی الحافظ میر عبدالرحمٰن نقشبندی مجددیؒ نے اکبرپورہ میں وصال فرمایا، اور آپ کا مدفن مبارک "ٹیٹارہ اکبرپورہ" میں واقع ہے۔ آپؒ کے وصال کے بعد آپ کے فرزند، سیّد قاضی حافظ عبد اللہ شاہ بخاریؒ نے سلسلۂ طریقت کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اس میں برکت اور وسعت عطا کی۔ وہ نہ صرف نسبی وارث تھے بلکہ علمی، روحانی اور اخلاقی وراثت کے سچے امین بھی تھے۔ ان کی رہنمائی میں ہزاروں افراد نے ہدایت پائی، اور سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ کو دوام حاصل ہوا۔ (از سیّد قاضی حامد شاہ )

 

Comments

Popular posts from this blog

Syed Qamir Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari k Sab say Chota Sahibzada Syed Qazi Mir Ahmad Gee Sahib and Zikar Syed Qazi Shah Pasand

عبد اللہ شاہ بخاری نقشبندی مجددی خلیفہ مجاز حضرت محمد یخیٰ المعروف حضرت جی اٹک /Syed Qazi Abdullah Shah Bukhari Naqashbandi

Syed Qazi Mir Ghulam Muhiuddin Bukhari Naqashbandi Mujaddi